Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں بیرونِ ملک سے آن لائن منگوائی جانے والی اشیا پر ڈیجیٹل ٹیکس ختم

بیرون ملک سے اشیا کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکس اب بھی ادا کرنا ہوں گے۔ فائل فوٹو: فری پِکس
پاکستان کی وفاقی حکومت نے بجٹ 2025 میں بیرونِ ممالک سے آن لائن منگوائی جانے والی مختلف اشیاء پر عائد پانچ فیصد ’ڈیجیٹل پریزنس پروسیڈز ٹیکس‘ ختم کر دیا ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں اس فیصلے کو باضابطہ طور پر واپس لیا گیا ہے، یعنی اب شہری عالمی کمپنیوں، جن میں علی ایکسپریس، گوگل،ایمازون، ٹیمو اور دراز وغیرہ شامل ہیں، سے اشیاء منگوانے پر پانچ فیصد ای ٹیکس ادا نہیں کریں گے۔
وفاقی حکومت نے بجٹ میں آن لائن منگوائی جانے والی خدمات اور اشیاء پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کیا تھا۔ یہ ٹیکس ان کمپنیوں پر لاگو کیا گیا تھا جن کے پاکستان میں دفاتر موجود نہیں۔ تاہم، بجٹ میں شامل ایک شق میں اس بات کی اجازت دی گئی تھی کہ وفاقی کابینہ اس ٹیکس کو معاف کر سکتی ہے۔

ایف بی آر کے نوٹیفکیشن میں کیا کہا گیا ہے؟

ایف بی آر کی جانب سے 30 جولائی 2025 کو جاری کردہ نوٹیفکیشن (S.R.O. No. 1366(1)/2025) میں بتایا گیا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بیرونِ ملک سے آن لائن منگوائی گئی اشیاء اور خدمات پر ڈیجیٹل ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ فیصلہ یکم جولائی 2025 سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی پاکستانی شہری شین، ٹیمو یا علی ایکسپریس جیسی ویب سائٹس سے کوئی چیز منگواتا ہے تو اس پر اب ’ڈیجیٹل پریزنس پروسیڈز ٹیکس‘ وصول نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، دوسرے عام ٹیکسز اب بھی لاگو رہیں گے۔

دوسرے ٹیکسز سے مراد کیا ہے؟

اگرچہ حکومت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ واضح کر دیا ہے کہ ’ڈیجیٹل پریزنس پروسیڈز ٹیکس‘ اب بیرون ملک سے منگوائی گئی اشیاء اور خدمات پر لاگو نہیں ہوگا، لیکن اس کے باوجود ایسے کئی دوسرے ٹیکسز موجود ہیں جو پاکستان میں کسی بھی درآمد شدہ چیز پر عائد ہوتے ہیں۔
ان میں سب سے عام کسٹمز ڈیوٹی ہے، جو ہر امپورٹڈ چیز پر اس کی قیمت کے حساب سے لاگو کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سیلز ٹیکس، ریگولیٹری ڈیوٹی، ویلیو ایڈڈ ٹیکس، اور بعض صورتوں میں ود ہولڈنگ ٹیکس بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص انٹرنیٹ کے ذریعے کسی غیرملکی ویب سائٹ سے کوئی چیز منگواتا ہے تو اُسے صرف ’ڈیجیٹل ٹیکس‘ سے چھوٹ ملے گی، لیکن دیگر ٹیکسز اب بھی ادا کرنا ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ درآمدی اشیاء کی اصل قیمت سے کہیں زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
دوسری جانب ٹیکس ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں آن لائن ٹریڈنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ بیرونِ ممالک کی کمپنیاں پاکستان میں آن لائن ٹریڈنگ میں ہی دلچسپی رکھتی ہیں، اس لیے حکومت کا یہ اقدام خوش آئند ہے، اور اس سے پاکستان میں آن لائن خریداری اور ٹریڈنگ کا رجحان مزید بڑھے گا۔ البتہ ایف بی آر کے تحت دیگر سیلز ٹیکس بدستور لاگو ہوں گے، اس لیے آن لائن خریداری مکمل طور پر ٹیکس فری نہیں ہوگی۔

ماہرِ معیشت ظفر موتی والا نے ٹیکس کے خاتمے کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ فائل فوٹو: فری پکس

پاکستان کے ٹیکس نظام پر گہری نظر رکھنے والے سابق وزیر مملکت برائے خزانہ ہارون شریف کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں صارفین کی خرید و فروخت تیزی سے ڈیجیٹل لین دین کی جانب بڑھ رہی ہے، اور امریکہ اس رجحان کو استعمال کرتے ہوئے آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کو زیادہ مصنوعات برآمد کرنا چاہتا ہے۔
ان کے مطابق حکومت کے حالیہ فیصلے سے جہاں چینی کمپنیاں فائدہ اٹھائیں گی، وہیں پاکستانی صارفین کو بھی نسبتاً کم قیمتوں پر آن لائن اشیاء دستیاب ہو سکیں گی۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں ٹیکس آمدن میں کمی کا خدشہ ہے جو لین دین کے حجم پر منحصر ہوگا۔ 
ان کا مزید کہنا تھا کہ بار بار پالیسی میں تبدیلی سے حکومتی ٹیکس نظام میں غیریقینی بڑھتی ہے، جو طویل المدتی اقتصادی پالیسی سازی کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آن لائن کمپنیاں اس تبدیلی کی کس حد تک اپنی قیمتوں میں عکاسی کرتی ہیں۔
ماہرِ معیشت ظفر موتی والا کے مطابق پاکستان کی جانب سے عالمی تجارتی قوانین پر عمل درآمد کرتے ہوئے آن لائن ٹریڈنگ پر عائد پانچ فیصد ٹیکس کا خاتمہ ایک خوش آئند قدم ہے۔ ان کے بقول یہ اشارہ ہے کہ پاکستان عالمی برادری میں ’نارملیسی‘ کی طرف واپس جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے اس پہلو کی نشاندہی بھی کی کہ یہ فیصلہ امریکہ کی دلچسپیوں کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ پاکستان ان معاملات کی طرف امریکہ کی جانب سے توجہ دلائی جا رہی ہے۔
ظفر موتی والا نے اس امکان کا اظہار کیا کہ اگر مستقبل میں امریکہ کسی اور مخصوص شعبے یا مصنوعات پر سے بھی ٹیکس ہٹانے کا مشورہ دے گا تو امکان ہے کہ پاکستان اس پر بھی عمل کرے گا۔

شیئر: