Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خلیجی ممالک میں ”بدون“

می خالد ۔ عکاظ
ہمارے قارئین اس بات کے عادی ہیں کہ کویت یا خلیجی ممالک میں ”بدون“ کا مسئلہ وقتاً فوقتاً پڑھتے رہیں۔ خلیجی ممالک کے قلمکار اور دانشور انسانی حقوق کے موضوع پر لکھتے وقت اور انسانی حقوق کے ضیاع کے حوالے سے بار بار ناگواری کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ خلیجی ممالک میں بدون کا مسئلہ انسانی مسئلہ ہے، انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ اب یہ مسلسل لاپروائی کے باعث خطرناک اور اجتماعی مسئلہ بن چکا ہے۔
سب سے پہلے تو ہم آپ کو بدون کا مطلب سمجھادیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ کویت سمیت خلیجی ممالک میں ایسے لوگوں کو بدون کہا جاتا ہے جن کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہوتی۔ عام طور پر یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس کسی ملک کی قومیت نہیں ہوتی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سعودی عرب میں بادیہ نشین کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔
کویت میں البدون کا لفظ 1960ءمیں منظر عام پر آیا۔ 1979ءتک یہی لفظ استعمال کیا جاتا رہا۔ پھر سرکاری دستاویزات میں بدون کے بجائے ”بدون جنسیہ“ کی تعبیر استعمال کی جانے لگی۔ اسکا مفہوم یہ ہے کہ بغیر شہریت والے لوگ۔
جو لوگ بدون کہے جاتے ہیں وہ کثیر تعداد میں ہیں لیکن حقیقت میں یہ بغیرشہریت والے نہیں۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی شناختی دستاویزات پھاڑ کرکوڑے دان کے حوالے کردی ہیںاور مقامی معاشروں میں دراندازی کرکے مقامی شہریوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ خود کو مظلوم کہتے ہیں اور خلیجی حکومتوں پر کوتاہی کا الزام لگارہے ہیں۔ ان میں سے کئی وہ بھی ہیں جو بلیک مارکیٹ سے کسی خلیجی ملک کا شناختی کارڈ بھی حاصل کئے ہوئے ہیں۔
یہ درست ہے کہ خود ہمارے یہاں سعودی عرب میں بھی بدون پائے جاتے ہیں لیکن مملکت میں انکی تعداداتنی نہیں جتنی کویت میں ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ حکومت کویت بدون کا تنازع ختم کرنے کے سلسلے میں سرد مہری کا مظاہرہ کررہی ہے۔ اس سے انکا بحران دھماکہ خیز ہوگیا ہے۔ انکی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو سعودی عرب میں گھس آئے ہیں ۔ میڈیا بدون کو نادار اور سبزی فروش کے طور پر پیش کررہا ہے۔ ان میں سے بعض واقعی ایسے ہیںبھی اور یہ ان ممالک کی شہریت کے حقداربنتے ہیں جہاںوہ پیدا ہوئے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ بدون کا مسئلہ ترجیحی بنیادو ںپر جلد از جلد نمٹا دیا جائے وگرنہ کویت کی طرح ہمارے یہاں سعودی عرب میں بھی انکا مسئلہ تشویشناک بن جائیگا اور ممکن ہے بین الاقوامی سطح پر درد سری کا باعث بنے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭ 

شیئر: