Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امت کے امراض

فہد عامر الاحمدی ۔ الریاض
عرب قوم ایسے امراض میں مبتلا ہے جن سے دنیا کی دیگر اقوام محفوظ ہیں۔ سب سے بڑا مرض غرور اور تاریخی ورثے کے گن گانا ہے۔ پے درپے شکست او رپے درپے ذلت و خواری کے باوجود مسلمانوں اور عربوں کا یہ مرض دور نہیں ہوا۔ دیرینہ مرض کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ انحطاط اور پسماندگی میں عربوں اور مسلمانوں کے شریک بھی بہت سارے ممالک ہیںتاہم ان ممالک کو اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا احساس ہے۔ وہ اس غرور میں مبتلا نہیں کہ وہ دنیا کی عظیم ترین قوم ہیں۔ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ”خیر امت“ کے لقب سے نوازا ہے مگر یہ بات اُس وقت درست تھی جب ہم برتری کا عَلم اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے۔غرور اور عظمت رفتہ پر گریہ نے ہمیں مزید امراض دیدیئے ہیں۔ روا داری سے کام نہ لینا۔ اختلاف کرنےوالوں کے ساتھ پرامن طور پر نہ رہ سکنا۔ جدید زندگی کو قدیم بنیادوںپر استوار کرنے کی کوشش کرتے رہنا۔ بدعنوانی کے تصور کی ا صلاح نہ کرنا۔ فوج اور جغرافیائی فتوحات کو برتری کی علامت ماننا ۔ ہر شے کو حرام قرار دینے ۔ سماجی روایات کو مذہب کا رنگ دینے کی کوشش کرنا۔ تنگی پیدا کرنے کی فکر کرتے رہنا۔ اولاد کو انسانی زندگی کی وقعت سے آگا ہ نہ کرنا غرور کے مرض کی پیداوار ہیں۔
ہم آپس میں ایک دوسرے کا خون بہا کر ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کوئی تکلف اور درد محسوس نہیں کرتے۔ ہم دنیا بھر میں یہ عقیدہ رکھنے والوں میں سب سے پیش پیش ہیں کہ دنیا کا ہر انسان ہمارے خلا ف سازشو ں میں مصروف ہے۔ اس چکر میں پیپسی، فورڈ،کنتاکی اور مائیکرو سافٹ کمپنیوں کو بھی سازشی عناصر میں شامل کردیا گیا۔
اداروں کے کلچر کے فقدان اور ہر معاملے کی کلید فرد واحد کے حوالے کرنے کے باعث ہمارے معاشرے سول سوسائٹی کی نعمت سے محروم ہیں۔ ہم لوگ ہمیشہ بے نظیر منصف قائد کے انتظار میں چشم براہ رہتے ہیں۔ ہم اکثر اپنے معاشرے کے منفرد ہونے کا ذکر بڑھ چڑھ کر کرتے رہتے ہیں اور اغیار کے کردار و گفتار ہی نہیں بلکہ ان کے اندرون تک پر نکتہ چینی کئے بغیر چین کا سانس نہیں لیتے۔ حق او رسچ یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی پسماندگی اور اسکے اسباب کو تسلیم نہیں کرینگے تب تک ہم اپنے کسی بھی قومی مرض سے نجات حاصل نہیں کرسکیں گے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: