Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی ، عراقی قربت، ایرانیوں کی نیندیں اڑنے لگیں

عراقیوں کو اپنے تشخص اور سلامتی کے خطرات کا ادراک ہونے لگا، یہ بھی احساس ہو چکا کہ ایران عراقیوں کو شام پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے استعمال کررہا ہے

امل عبدالعزیز الھزانی - -  الشرق الاوسط

    عالم اسلام کے دل صد پارہ اور مسلم دنیا کے دل سعودی عرب اور عراق کے درمیان 2003 ء کے بعد جو خلیج پیدا ہوئی تھی اسے چند قدم چل کر آسانی سے پاٹا جاسکتا تھا۔ مجھے اپنے اس دعوے میں ادنیٰ سا مبالغہ بھی نظرنہیں آتا۔ آلودہ ماحول کو صاف کرنے کیلئے معمولی کاوش درکار تھی۔ یہ سچ ہے کہ سعودی عرب نے 2003 ء کے بعدعراق پر امریکہ کے ناجائز قبضے پر احتجاجاً عراق سے فاصلہ قائم کرلیا تھا۔ سعودی عرب صدام حسین کے سقوط کے بعد عراقی مسائل سے نمٹنے کے امریکی طور طریقوں سے انتہا درجے نالاں تھا۔ سعودی عرب نے امریکی قیادت کو عراق کے اطراف منڈلانے والے عراقی اور شامی خطرات سے آگاہ کرکے اسے مناسب اقدامات کے مشورے دیئے تھے۔ امریکہ نے سعودی مشورے سن کر اَن سنے کردیئے تھے۔
     وقت نے سعودی عرب کے موقف کو درست اور امریکہ کے موقف کو غلط ثابت کردیا۔ ایران عراق کی تاک میں گھات لگائے ہوئے بیٹھا تھا۔ اس نے انتقامی سازشوں ، عراق سے متعلق اپنے حریصانہ عزائم اور خود ساختہ ذہنی قضیوں کو نمٹانے کا بھرپور چکر چلایا۔ ایران  پوری قوت کیساتھ کسی سے اجازت لئے بغیر عراق میں گھس گیا۔ ایران نے عراق میں فرقہ وارانہ آگ کا آتش فشاں بھڑکا دیا۔ کل تک ایک ساتھ رہنے والے شیعہ سنی عراقیوں کے اتحاد کو کشمکشوں کے بھنور میں تبدیل کردیا۔ عرب شیعہ ایران کے جھانسے میں آگئے۔ وہ اس چکر میں پڑ گئے کہ صدام حسین نے دائیں ہاتھ سے ان سے جو حقوق چھینے تھے ایران بائیں ہاتھ سے انہیں انکے وہ حقوق دلوا دے گا۔ وقت نے انہیں مایوس کیا۔ عراقی شیعہ ایران سے اپنی امیدوں اور آرزوئوں کی تکمیل کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ ایران عراق کے ایوان صدارت ، پارلیمنٹ اور کابینہ تک میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اب صورتحال یہ بنی ہے کہ جو جتنا ایران کے زیادہ قریب ہوگا، اسے عراقی صدارت، پارلیمنٹ اور کابینہ میں اتنے ہی زیادہ مواقع حاصل ہوسکیں گے۔ گزشتہ 15برسوں کے دوران عراقی خودمختاری تباہ وبرباد ہوچکی ہے۔ اب عراقی یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ایران کے بغیر انکا گزارہ نہیں۔ عراق میں القاعدہ اور سنیوں کی دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ رسہ کشی کے باعث عراقی ایران کو نجات دہندہ کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ جان بوجھ کر عراق کو عسکری، سیاسی،ثقافتی اور سماجی لحاظ سے کمزورکردیا گیا ہے۔ عراق کو موت اور دہشت کی سرزمین میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ سارا کھیل اس لئے رچاگیاتاکہ کمزور عراق پر ایران کا مکمل کنٹرول قائم اور برقراررہے۔ ایران سیاسی اور بنیادی ڈھانچے میں مضبوط ممالک کے نظام کو متزلزل کرنے کا خواب تو پوراا نہیں کرسکا البتہ افغانستان، عراق، لبنان، شام اورغزہ میں اسے کامیابی مل گئی۔ یمن بال بال بچ گیا۔
    2014ء کے موسم گرما میں چند گھنٹوں کے اندر داعش تنظیم نے الموصل پرقبضہ کرلیا تھا۔ ایرانی پاسداران انقلاب امریکی مداخلت کے بغیر داعش سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ وہاں وہی کچھ ہوا جو کچھ شام میں ہوا۔ اگر روس مداخلت نہ کرتا تو بشار الاسد کے نظام کادھڑن تختہ ہوجاتا اور بشار کے فوجی اپوزیشن کو قابو نہیں کرسکتے تھے۔ ایران نے یہی کوشش یمن میں کی۔ وہ حوثیوں کے ذریعے یمن کو لقمہ تر بنانے کے درپے تھے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے فوجی محاذ قائم کرکے ایران کے نمک خواروں کو انکی حقیقت دکھادی۔
    عراق میں کافی کچھ بدل گیا ہے۔ فرقہ واریت کی شدت ماضی کے مقابلے میں کم ہوئی ہے۔ عوامی اور پارلیمانی سطحوں پر بدعنوانی کے انسداد کے مطالبے ہونے لگے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بدعنوانی عراقیوں کے مستقبل کی حقیقی دشمن ہے۔
    سعودی عرب عراق کے حال و مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ عراق کے سیاستدانوں اور وہاں کے اقتصادی و ثقافتی امور کے رکھوالوں سے قربت پیدا کرنے لگا ہے لیکن سعودی عرب خود کو عراق میں سیاسی و نظریاتی مداخلت سے دور رکھے ہوئے ہے۔ سعودی عرب کا موقف ہے کہ سیاسی یا نظریاتی فیصلے کے مجاز خود عراقی ہیں۔ مملکت نے شیعہ فرقے کے نمایاں ترین، طاقتور ترین اور بہادرترین رہنما مقتدی الصدر کو اپنے یہاں مدعو کیا۔ 2017 ء میں انہوں نے سعودی عرب کاد ورہ کیا۔ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی۔ 2 ماہ بعد شاہ سلمان سے عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ ملاقات کی۔ سعودی عراقی رابطہ کونسل قائم کی گئی۔ سعود ی صحافیوں کے وفد نے عراقی صحافیوں کی تنظیم کی دعوت پر بغداد کا دورہ کیا۔ وزیراعظم سے ملاقات کی۔ سعودی عراقی قربت ایرانیوں کی نیند اڑانے لگی ہے کیونکہ 2003ء سے عراق میں تنہا وہی نظرآرہے ہیں۔ سعودی عرب خود کو عراق میں ایران کا حر یف نہیں بنا رہا بلکہ اسکا مقصد برادر عرب ملک کے ساتھ تعلقات کی بحالی ہے۔ مملکت کو احساس ہے کہ اسکا ہمسایہ فرقہ وارانہ کشمکشوں کے جہنم کی آگ میں جھلس رہا ہے جس سے نکالنا ہمسائیگی کا حق بنتا ہے۔
    عراقیوں کو آج تاریخ سے سبق لینا ہے۔ عراق کو ایران کی تباہ کن مداخلت سے نجات حاصل کرنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عراق کے شیعہ قائدین کو ایرانی مداخلت کے باعث اپنے تشخص اور اپنی سلامتی کے خطرات کا ادراک ہونے لگا ہے۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہوچکا ہے کہ ایران عراقیوں کو شام پرکنٹرول حاصل کرنے کیلئے استعمال کررہا ہے۔ ایران نے بغداد پر اپنا کنٹرول قائم کرلیا ہے اور اسے فارس کی شہنشاہیت کے دارالحکومت کانام دیدیا ہے۔
مزید پڑھیں:- - - - -سعودائزیشن صحیح جہت میں

شیئر: