Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شاید

***جاوید اقبال ***
واٹس ایپ پر ایک اور ویڈیو کلپ موصول ہوا ہے۔ ترکی کے کسی ٹی وی چینل کے اسٹوڈیو میں ایک ڈاکٹر کا انٹرویو کیا جارہا ہے۔ وہ شام کے جنگ زدہ علاقوں میں قائم ترکی کے گشتی شفاخانوں میں کام کرتا رہا ہے۔ اناؤنسر کے اس سوال پر کہ کیا وہ کوئی ناقابل فراموش واقعہ بیان کرے گا۔ ڈاکٹر کے چہرے پر افسردگی کے سائے اپنا دامن پھیلاتے ہیں۔ وہ بتاتا ہے کہ ایک دن وہ اپنی گشتی شفاخانے کی گاڑی میں ایک قصبے میں تھا کہ بشار الاسد کے جنگی جہازوں نے انتہائی ظالمانہ انداز میں آبادی پر بے پناہ بم برسادیئے۔ ہر شے تہس نہس ہوگئی۔ لاشوں اور زخمیوں کو سنبھالنے والے ہاتھ کم پڑ گئے۔ اس دوران 8,7 سالہ ایک زخمی بچہ اس کی گاڑی میں لایا گیا۔ شدید زخمی تھا اور بم کا ایک ٹکڑا اس کی ننھی سی ران کو ادھیڑ تا اندر جا بیٹھا تھا۔ بچے کی حالت انتہائی تشویشناک تھی تاہم وہ ابھی ہوش میں تھا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس پر ضعف طاری ہورہا تھا چنانچہ ہم نے فورا ًاس کی ران پر جراحی کرکے بم کا ٹکڑا نکالنے کا فیصلہ کیا ، مگر ایک مسئلہ تھا۔ ادویات کا بے حد استعمال ہوتا رہا تھا اور انستھیزیا نہیں تھا۔ بچے کو صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور اسے کہا گیا کہ اسے بے انتہاء درد برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ سن کر وہ بڑے جرأتمند انداز میں بولا ’’ آپ جراحی کریں مجھے درد نہیں ہوگا۔ میری ماں نے مجھے کہا تھا کہ جب بھی مجھ پر کوئی مصیبت آئے میں سورۃ یاسین کی قرأت کروں ،بلائیں بھاگ جائیں گی۔‘‘ ترک ڈاکٹر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تب مضمحل بچے کے چہرے پر کپڑا ڈال دیا گیا اور جراحی کی ابتداء ہوئی۔ جونہی نشتر اس کی ران میں اترا بڑی مضبوط ننھی آواز کپڑے کے نیچے سے بلند ہوئی۔ اس نے یقین اور محکم انداز میں قرآن کریم کی قرأت کا آغاز کردیا تھا۔ ایمبولنس میں سکوت تھا۔ صرف آیات ربانی کسی خوشبودار آبشار کی طرح ماحول کو پُر تقدیس بنارہی تھیں۔ میری مددگار نرس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ لرزتے ہاتھوں سے جراحی میں میری مدد کررہی تھی۔ کام بہت تھا۔ بچے کی ادھڑی ران کے ریشے جلے پڑے تھے۔ انہیں کاٹ کر صفائی کی جانی تھی۔ بم کا ٹکڑا گہرائی میں تھا۔ تقریباً 35 منٹ لگ گئے۔ اس سارے وقت میں مجروح معصوم کی قرأت شفاخانے میں گونجتی رہی تھی۔ مسلسل ، بلا توقف وہ پڑھتا رہا۔ جراحی کا درد اس کی آواز کے زیر و بم اور کلماتِ ربانی پر اس کے یقین تلے دم توڑ گیا۔ زخمی ران کی پٹی کرنے کے بعد ہم نے اس کے چہرے پر سے کپڑا ہٹا یا۔ کہیں کوئی خوف کا شائبہ تک نہ تھا۔ آنکھوں میں ہمارے لیے تشکر تھا۔ سورۃ یاسین پر اس کے اعتقاد نے اس کے لیے دریائے الم کو راحت اور سکون کے آبشار میں بدل دیا تھا۔ یہ کہہ کر ترک ڈاکٹر رو پڑا۔ اسٹوڈیو کی فضا پر سکوت طاری تھا۔ اناؤنسر خاموش تھا اور پروگرام کا اختتام ہوگیا۔
حالیہ برسوں کی تاریخ جتنا شام میں بشار الاسد کے ہاتھوں شہریوں پر ہونے والے مظالم پر روئے گی اتنا شاید اگلے وقتوں میں کبھی بھی نہ روئے۔ اس کے اقتدار کے خلاف تحریک کا آغاز مارچ 2011ء میں ہوا تھا۔ حکومت نے اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو سختی سے دبانے کی کوشش کی۔ ابتدائی مظاہرے پُر امن تھے لیکن جب بشار الاسد نے ان کے خلاف بے پناہ فوجی طاقت استعمال کی تو مظاہرین نے بھی قوت کا استعمال شروع کردیا۔ جولائی 2011ء تک بشار الاسد کے بھگوڑے فوجیوں نے ’’فری سیرین آرمی‘‘ کے نام سے اپنا گروہ بنالیا۔ ان کا ساتھ شامی شہریوں کی اکثریت بھی دے رہی تھی۔ پھر ایک اور صورتحال نے جنم لیا۔ مذہبی اور لادین عناصر کے الگ الگ گروہ بن گئے اور اس تقسیم نے حالات کو بدتر کردیا۔ آغاز کے 4 برس بعد 2015ء کے موسم خزاں میں بیرونی طاقتیں بھی میدان میں اتر آئیں۔ روس اور ایران نے صورتحال کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بشار الاسد کی فوج شہروں کو تاخت و تاراج کرتی گئی۔ شہری ترکِ شہر اور پھر ترکِ وطن پرمجبور ہوگئے۔ آج تک 5 لاکھ شامی موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ ہنستے بستے شہر کھنڈر بنے ہیں جیسے کسی آفت سماوی نے کسی رات کو اتر کر موت و بربادی کا قالین بچھا دیا ہو۔ انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔ اشیائے صرف ، خوراک اور ادویات کی قلت نے متاثرہ علاقوں میں زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ شام کی 22 ملین آبادی میں سے11 ملین آبادی ملک چھوڑ کر جاچکی ہے۔جو بچے ہیں، ایک عذابِ مسلسل سے گزر رہے ہیں۔ شمال کے شہروں میں خاندان کے خاندان تہہ خانوں اور زیر زمین پناہ گاہوں میں قیام پذیر ہیں۔ نوشیدنی ، پانی دستیاب نہیں۔ دن کے بیشتر حصے میں اکثریت اپنے لئے نئی پناہ گاہیں کھودتی رہتی ہے۔اس وقت لبنان میں 9 لاکھ 95 ہزار 912 شامی مہاجرین بے یارو مددگار بیٹھے ہیں۔ اردن میں ان کی تعداد 6  لاکھ 57 ہزار  628 ہے جبکہ عراق میں 2 لاکھ 47 ہزار 379 شامی ہجرت کرکے جاچکے ہیں۔ ترکی میں ان کی تعداد 33لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے اور ہزاروں خاندان اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر یورپ کے ساحلوں پر اترنے کی سعی کرتے ہیں۔ کبھی کامیاب ہوجاتے ہیں اور کبھی ناکام ہوتے ہیں تو ان کے 3, 3 سالہ معصوم بچوں کی لاشیں ترکی کے ساحلوں پر اکٹھی پڑی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہوتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے بیان کے مطابق شامی آفت زدہ شہریوں کی مدد کیلئے اسے گزشتہ برس 4.6 ارب ڈالر کی ضرورت تھی لیکن اس عدد کے نصف سے تھوڑی زیادہ رقم دستیاب ہوسکی لیکن سوال یہ نہیں کہ اقوام متحدہ نے کتنے مظلوم شامیوں کی کتنی مدد کی۔ سوال یہ ہے کہ یہ عالمی ادارۂ امن کیوں خاموشی سے بشار الاسد کے ہاتھوں معصوم شہریوں پر ہونے والے مظالم دیکھ رہا ہے؟اسے اپنے فرائض کا احساس کیوں نہیں ہورہا؟ 22 ملین کی آبادی میں سے 11 ملین بے گھر ہوچکے ہیں اور ان کے معصوم اپنی ننھی رانوں میں بشار الاسد کے برسائے بموں کے ٹکڑے اتارے اپنی ماؤں کی نصیحتوںپر عمل کرتے دوران جراحی آیات ربانی کی قرأت کو تحذیر بنارہے ہیں۔ میں پوٹن ، حسن روحانی ، بشار الاسد اور ڈونالڈ ٹرمپ کے واٹس ایپ نمبر نہیں جانتا۔ اگر یہ میرے علم میں ہوتے تو میں ان چاروں کو اُس ننھے شامی بچے پر ہونے والے عمل جراحی اور پھر اس کی دلفریب اور انتہائی پر تاثیر قرأت کی تقریباً 2 منٹ طویل ویڈیو فلم ضرور بھیجتا۔ شاید کہیں کوئی آنکھ پرُنم ہوجاتی یا کوئی ضمیر بیدار ہوجاتا۔
 

شیئر: