Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب کے بارے میں نیا تصور

عبد اللہ بن بجاد العتیبی۔ الشرق الاوسط
ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بیرون ملک دورے ابھی تکمیل طلب ہیں حالانکہ جن 2ملکوں کا وہ دورہ کرکے آئے ہیں وہ نہ صرف میڈیا کا موضوعِ گفتگو ہیں بلکہ عام لوگ بھی اپنی مجلسوں میں اس کے تذکرے کر رہے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلمان کے بیرون ملک دوروں کے 3بڑے اسٹیشن ہیں۔پہلا عرب خطے میں سعودی عرب کا سب سے بڑا حلیف مصر کا دورہ، دوسرا یورپ میں سعودی عرب کا تاریخی حلیف برطانیہ کا دورہ تھا جبکہ تیسرا عالمی سطح پر مملکت کا اہم اور بنیادی حلیف امریکہ کا دورہ شامل ہے۔ تینوں اسٹیشن انتہائی غور وخوض کے بعد منتخب کئے گئے جو ولی عہد کے وژن 2030کی تکمیل کر رہے ہیں۔ولی عہد اپنے غیر ملکی دوروں میں جو پیغام لے کر گئے ہیں، اس کا تعلق نئے تشکیل پانے والے سعودی عرب سے ہے جو زمانے کی گرد جھاڑکر مستقبل کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ مستقبل جس کے استقبال کے لئے بنیادی اصلاحات کی جارہی ہیں۔ ایک ایسا سعودی عرب جو مشرق وسطیٰ کا طاقتور ترین ملک ہو اور جو خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہو اور جو عسکری طاقت کے بل بوتے پر فوجی اتحادوں کی قیادت کر سکتا ہو۔ نیا سعودی عرب اپنے معاشی ڈھانچے میں مکمل تبدیلی کر رہا ہے جس کی بنیاد میں اس کا وژن ہے اور جس کا علمبردار خود ولی عہد ہے۔
دہشت گردی کے انسداد کے ضمن میں ولی عہد نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ سعودی عرب شدت پسندی کی تمام تر روایتوں پر اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گا۔ وہ شدت پسندی جس سے گزشتہ4دہائیوں سے عرب ممالک شکار ہیں،1979ءکے بعددرآنی والی ہر شدت پسندی کا خاتمہ ہوگا۔ انسداد دہشت گردی کے علمبردار ممالک گاہے گاہے ان افراد اور اداروں کی بھی نشاندہی کرتے رہا کریں گے جو خطے میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کی بیخ کنی کی کوشش کی جائے گی۔نیوم منصوبے کے افتتاح کے وقت ولی عہد نے واضح کیا تھا کہ ہم سعودی عرب میں اعتدال پسند اسلام واپس لے آئیں گے جو اس سے پہلے رائج تھا۔ہم شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے مزید 30سال ضائع نہیں کریں گے بلکہ ان کا ابھی اور فوری خاتمہ کردیں گے۔ جس سعودی عرب کے خواب شہزادہ محمد بن سلمان دیکھ رہے ہیں وہ اعتدال اور وسطیت پر مبنی ملک ہے جو دنیا کے لئے روادی کا پیغام لے کر جاتا ہے ۔ اسی تصور کو لے کر ولی عہد نے مصر کے دورے کے دوران عیسائیوں کے روحانی پیشوا سے ملاقات کی ۔ اسی طرح لندن میں بھی بشپ سے ملاقات کرکے آسمانی مذاہب کے درمیان مکالمے کی اہمیت پر زور دیا۔
یہ وہ انسانیت نواز پیغام ہے جو سعودی عرب لے کر چل رہا ہے ۔ دنیا کے دیگر مذاہب کے لئے سعودی عرب کی حیثیت مسلم ہے کہ اس ملک میں نہ صرف حرمین شریفین ہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان یہاں موجود کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔اعتدال پسند اسلام کو اختیارکرنے کی بات کی جائے تو اس کا بدیہی مطلب یہ ہے کہ اب انتہا اور شدت پسندی کی یہاں کوئی گنجائش نہیں، خواہ وہ فرقہ پرستی پر مبنی ہوجس کی دعوت ایران دیتا ہے یاسیاسی اسلام کی جس کی دعوت ترکی اور قطر کے علاوہ انکی لے پالک تنظیمیں دے رہی ہیں۔سنی اور شیعہ فرقوں میں سے کسی کی طرف سے یہاں شدت اور انتہا پسندی کی دعوت کا مقابلہ کیا جائے گا۔
دنیا سعودی عرب کو تیل کی دولت سے جوڑتی رہی ہے مگر یہ تصور اب آہستہ آہستہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ اب سعودی عرب تیل کو آمدنی کا واحد ذریعہ نہیں سمجھتا۔ آئندہ تیل کے علاوہ دیگر ذرائع آمدنی بھی ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا کے سرمایہ کار سعودی عرب کو حریص نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ یہاں ہونے والے میگا پروجیکٹ میں دنیا کو دلچسپی ہے۔اسی طرح آرامکو کمپنی کے حصص خریدنے میں کئی ممالک ، اداروں اور افراد کو دلچسپی ہے۔ زمانے کی گرد جھاڑ کر سعودی عرب اب صرف صارف ملک نہیں رہا۔ وہ پیداواری ملک بنتا جارہا ہے جو دنیا کو شراکت داری کی بنیاد پر اپنے ساتھ شامل کر رہا ہے۔لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا آسمان کام نہیں مگر ولی عہد نے مختصر عرصے میں دنیا کا اعتماد حاصل کر لیا۔ اب سعودی عرب کے ساتھ شراکت داری دنیا کے ہر ملک کے لئے منافع کا سودا ہے۔ولی عہد نے علانیہ کہا ہے کہ وہ اپنے حلیفوں کا وفادار دوست ہے اور جو اس کے ملک سے دشمنی رہے ، اس کے لئے وہ طاقتور دشمن ہے۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: