Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حوثی باغیوں کیخلاف جاری جنگ وقت کی ضرورت

عبدالرحمن الراشد ۔ الشرق الاوسط
سعودی عرب کے 4شہروں پر 7میزائل داغنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف کی جانے والی جنگ کا اقدام حق بجانب تھا۔سعودی عرب اب تک خطے میں ایران کی تخریب کاری سے متعلق دنیا کو خبردار کرتا رہا ہے ۔ اسکا واضح ثبوت عالمی برادری کو مہیا ہوگیا ہے۔ اب اس بات میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا کہ حوثی باغیوں کو دور مار میزائل نہ صرف ایران فراہم کرتا ہے بلکہ سعود ی عرب کی طرف داغنے کا کام بھی ایرانی ماہرین کے ہاتھوں کیا جاتا ہے۔
اتوار اور پیر کی درمیانی شب سعودی عرب پر یمن کی طرف سے سب سے بڑا حملہ ہوا۔ یمن پر قبضہ کرنے کے بعد 3سال کے دوران ایران کی پشت پناہی میں کام کرنے والی ملیشیا کی طرف سے یہ سب سے بڑا اقدام تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میزائلوں کی تعداد کتنی تھی اور یہ کتنی دور تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں محض دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں۔ حوثی باغی دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس ریاض تک مار کرنے والے میزائل موجود ہیں۔ 
ریاض کی فضا میں ناکارہ بنائے جانے والے میزائلوں کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔معلوم ہوتا ہے گویا آسمان پر آتشبازی ہورہی ہے تاہم جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ حوثی باغیو ںنے اتنی بڑی تعداد میں میزائل داغنے کے لئے جس وقت کا انتخاب کیا ہے وہ سوچا سمجھا ہے۔ حوثی باغیوں کو یمن پر قبضہ کئے ہوئے 3سال کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے۔ تین سال قبل حوثی باغیوں نے یمن کی دستوری حکومت کے خلاف بغاوت کرکے پورے یمن پر قبضہ کرلیا تھا۔ گو کہ سعودی عرب کے شہروں پر داغے جانے والے تمام میزائل ناکارہ بنادیئے گئے اور ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے ہدف تک نہیں پہنچ سکا تاہم ان میزائلوں نے سعودی عرب کو ایک اور موقع فراہم کردیا ہے کہ سعودی حکومت عالمی برادری کو ایک مرتبہ پھر یاد دلائے کہ حوثی باغیوں او ران کی حلیف طاقت کے خلاف جاری جنگ وقت کی ضرورت ہے۔
حوثی ملیشیا اس وقت یمن کے ایک چوتھائی علاقے پر قابض ہے۔ زمینی حقیقت بتا رہی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے زیر قبضہ علاقوں پر بڑی مشکل سے معاملات چلا رہے ہیں بلکہ خود اپنے گڑھ صعدہ میں انکا کنٹرول ڈھیلا پڑچکا ہے۔ اس سے قبل وہ پورے یمن پر قابض تھے۔یہاں تک کہ عدن تک پہنچنے والے تھے۔ اس وقت یمن کی دستوری حکومت شہر چھوڑ کر سلطنت عمان اور پھر وہاں سے سعودی عرب فرار ہونے پر مجبور ہوگئی تھی۔ اگر اتحادی افواج بروقت کارروائی نہ کرتے تو آج پورا یمن اپنی بندرگاہوں ، ایئرپورٹس اور تمام ملکی تنصیبات سمیت ایران کے قبضے میں ہوتا۔ اگر ایسا ہوجاتا تو دشمن سعودی عرب کی طرف کئی ہزار میزائل داغ چکا ہوتا۔ جو لوگ یمن میں عسکری کارروائی کی مخالفت کررہے ہیں انہیں سوچنا چاہئے کہ اگر عسکری کارروائی نہ ہوتی تو آج بھی یمنی شہری حوثی باغیوں کے رحم و کرم پر ہوتے۔ ایسی کیفیت میں حالات نہ صرف سعودی عرب کےلئے انتہائی خطرناک ہوجاتے بلکہ پورے خطے کےلئے حوثی باغیوں کا وجود انتہائی خطرناک ہوتا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب پر 7میزائل داغ کر دنیا کو کرتب دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس سے حوثی باغیو ںکی عسکری بالا دستی ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ میزائل استعمال کرنے کے فن سے ناواقف ہیں۔ یہ کارروائی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یمن کے شمال میں چوتھائی علاقہ جو حوثی باغیوں کے قبضے میں ہے اسے فوری طور پر عسکری کارروائی کے ذریعے آزاد کروایا جائے۔ اب سیاسی عمل یا سفارتی سفارشوں کا وقت نہیں رہا۔ یہ چوتھائی علاقہ پہاڑی سلسلہ ہے جو انتہائی سنگلاخ ہے اور جہاں بہت بڑی آبادی مقیم ہے۔ حوثی باغی شہری آبادی کو ڈھال بنائے ہوئے ہیں۔
دارالحکومت ریاض پہنچنے والا حوثی میزائل سعودی عرب اور اتحادی ممالک کو شروع کی جانے والی کارروائی مکمل کرنے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کا نیا عزم فراہم کرتا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ جلد از جلد یمن کو حوثی ملیشیا سے پاک کرکے پورے ملک کو دوبارہ متحد کرکے دستوری حکومت کے حوالے کیا جائے۔ جو قوتیں اتحادی ممالک کو عسکری کارروائی روکنے اورسیاسی عمل کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی دعوت دے رہے تھے انہیں چپ کرانے کا وقت آگیا ہے۔ عسکری کارروائیاں روک کر سیاسی عمل شروع کرنا حوثیوں کی بہت بڑی خدمت کے مترادف ہے۔ اس سے فائدہ اٹھا کر حوثی باغی خود کو از سر نو منظم کرنے کی کوشش کرینگے۔ حوثی باغیوں سے صرف ایک بات کی جاسکتی ہے کہ وہ ہتھیار پھینک کر ملک کا کنٹرول دستوری حکومت کے حوالے کردیں اور پھر وہ چاہیں تو جمہوری طریقہ کار سے انتخابات لڑ کر اقتدار میں آجائیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: