اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے پولیس کے ہمراہ منگل کو قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں کارروائی کرتے ہوئے ان طلبہ کے خلاف آپریشن کیا جو یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔
پولیس نے کارروائی کے دوران ہاسٹل نمبر 6، 8، 9 اور 11 سے درجنوں طلبہ کو نکالا۔ یونیورسٹی حکام کا کہنا ہے کہ ’ان طلبہ کو ہاسٹلز خالی کرنے کے لیے متعدد بار مہلت دی گئی تھی، تاہم وہ مسلسل رہائش پذیر رہے، جو یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
بلوچستان یونیورسٹی: ہراسانی میں ملوث افسران کے خلاف کارروائیNode ID: 494761
-
بلوچستان یونیورسٹی سے دو طالب علم لاپتا، طلبہ تنظیموں کا احتجاجNode ID: 616911
آپریشن کے دوران کچھ طلبہ کی جانب سے مزاحمت بھی کی گئی، جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ہوئے اُنہیں حراست میں لے کر تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کر دیا۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے موسمِ گرما کی تعطیلات کے دوران تزئین و آرائش اور مُرمت کے کام کے لیے 13 جولائی سے ہاسٹلز عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا تھا، جس پر بیشتر طلبہ نے عمل کیا، تاہم کچھ طلبہ بدستور وہاں موجود تھے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بھی اس معاملے میں یونیورسٹی کے فیصلے کو جامعہ
کا اندرونی معاملہ قرار دے چکی ہے اور طلبہ کی جانب سے دائر درخواست کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کردیا گیا تھا۔
ہاسٹلز کیوں خالی کروائے گئے؟
اردو نیوز نے اس معاملے پر قائداعظم یونیورسٹی کے ترجمان ندیم یاسر نے رابطہ کیا جنہوں نے بتایا کہ ’اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ نے منگل کو قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز خالی کروانے کے لیے کارروائی کی، جو جامعہ کی جانب سے مقررہ حتمی مہلت ختم ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی۔‘
اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’یونیورسٹی انتظامیہ نے 13 جولائی سے موسمِ گرما کی تعطیلات کے دوران ہاسٹلز کی عارضی بندش کا اعلان کیا تھا تاکہ سالانہ مُرمت، دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا جا سکے۔‘
’اس فیصلے کے بعد زیادہ تر طلبہ نے رضاکارانہ طور پر ہاسٹلز خالی کر دیے تھے، تاہم چند طلبہ اب بھی وہاں مقیم تھے جنہیں انتظامیہ کی جانب سے متعدد بار ہاسٹلز خالی کرنے کی مہلت دی گئی تھی۔‘
اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’طلبہ کی جانب سے ہاسٹلز خالی نہ کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے قائداعظم یونیورسٹی ایکٹ 1973 کے تحت ادارے کی خودمختاری کا حوالہ دیتے ہوئے اُن کی درخواست ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔‘

ترجمان جامعہ کے مطابق ’قائداعظم یونیورسٹی نظم و ضبط، اعلٰی تعلیمی معیار اور ادارہ جاتی خودمختاری کے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے طلبہ کے لیے ایک محفوظ اور سازگار ماحول یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔‘
اردو نیوز سے گفتگو میں قائداعظم یونیورسٹی کے حکام نے بتایا کہ ’گرمیوں کی تعطیلات کے دوران اکثر ایسے افراد بھی یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش اختیار کر لیتے ہیں جو یونیورسٹی کے طالب علم نہیں ہوتے جس کے باعث غیرقانونی سرگرمیوں کا خدشہ پیدا ہو جاتا ہے۔‘
حکام کا مزید کہنا تھا کہ ’غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی موجودگی سے نہ صرف سکیورٹی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ ان طلبہ کے لیے مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں جو نئے داخلے کے بعد ہاسٹل میں رہائش کے اہل ہوتے ہیں۔‘
یونیورسٹی انتظامیہ کے مطابق ’بارہا درخواستوں اور مہلت کے باوجود جب طلبہ ہاسٹلز خالی نہیں کرتے تو ہمیں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد لینا پڑتی ہے تاکہ حالات کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے قابو میں لایا جا سکے۔‘
اردو نیوز نے اس معاملے پر طلبہ کا موقف جاننے کے لیے پشتون سٹوڈنٹس کونسل کے وائس چیئرمین داداللہ دُمڑ سے رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اسلام آباد پولیس نے آج صبح تقریباً اڑھائی بجے بری امام میں جمع ہونے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی کے ہاسٹلز پر چھاپہ مارا اور ہمارے 72 طلبہ کو حراست میں لے لیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اگر یونیورسٹی انتظامیہ ہمارے گرفتار شدہ طلبہ میں سے کسی ایک کو بھی غیر قانونی ثابت کر دے تو ہم اِس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔‘
داداللہ دُمڑ کا کہنا تھا کہ ’ان کی ڈگریز 25 اگست یا یکم ستمبر تک جاری ہیں، اور اس وقت وہ اپنی تیسری سبمشن اور فائنل پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وہ ہاسٹل میں مقیم تھے۔‘
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ’منگل کو کی گئی کارروائی میں پولیس نے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے اُن طلبہ کو بھی گرفتار کیا ہے جو باقاعدہ یونیورسٹی میں زیرِتعلیم ہیں۔‘
داداللہ دُمڑ کا کہنا تھا ’ہمیں یونیورسٹی میں تین سے چار سال ہو چکے ہیں۔ ہر سال گرمیوں کی تعطیلات میں ہاسٹلز کی مُرمت ہوتی ہے اور طلبہ بھی وہاں رہائش پذیر ہوتے ہیں، لیکن اس بار بلاجواز دلائل کی بنیاد پر طلبہ کو نکالا گیا ہے، جو قابلِ مذمت ہے۔‘
دوسری جانب قائداعظم یونیورسٹی سے گرفتار کیے گئے طلبہ کو تھانہ سیکریٹریٹ منتقل کیے جانے کے بعد ایک طلبہ تنظیم کے درجنوں طلبہ تھانے کے باہر جمع ہو گئے۔
مظاہرین نے اسلام آباد پولیس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اُن کے ساتھی طلبہ کو بلاجواز گرفتار کیا گیا ہے۔
احتجاج کے دوران مظاہرین نے تھانے کے مرکزی دروازے پر دھکم پیل کی اور اندر جانے کی کوشش بھی کی، تاہم پولیس کی موجودگی کے باعث انہیں روک دیا گیا۔ واقعے کے باعث تھانہ سیکریٹریٹ کے باہر سکیورٹی کے اضافی انتظامات کیے گئے تھے۔