Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سچائی ، اسلامی معاشرے کا بنیادی وصف

سچائی کو دل کا اطمینان ، نجات کا وسیلہ ، حصول جنت کا سبب ، خدا کی خوشنودی و رضا کا باعث اور مال میں برکت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے

 * * * مولانا محمد الیاس گھمن۔ سرگودھا * *  *

    اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کو جن خطوط پر چلنے کا حکم دیا ہے، ان میں سے ایک’’صدق‘‘ بھی ہے۔ صدق وسچائی اللہ تعالیٰ،انبیائے کرام علیہم السلام، بالخصوص خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ، ملائکہ ، اولیاء و صلحاء اور ہر منصف مزاج سلیم الفطرت شخص کا درجہ بدرجہ مشترکہ وصف ہے۔اپنی اہمیت کے حوالے سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انسان خواہ وہ مومن ہو یا کافر، مسلم ہو یا غیر مسلم ، نیک ہو یا بد ،حاکم ہو یا رعایا،افسر ہو یا ملازم ، قائد ہو یا کارکن ، استاد ہو یا شاگرد ، پیر ہو یا مرید ، امیر ہو یا غریب، اپنا ہو یا پرایا ، والدین ہوں یا اولاد الغرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
    انسانی معاشرے کا امن و سکون ، راحت و چین اور اس کی تعمیر و ترقی کی بنیاد صدق پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس کو اپنانے کی بہت تاکید آئی ہے۔قرآن و سنت کی تعلیمات میں اس کی فضیلت اور ضرورت روزروشن کی طرح واضح ہے۔اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صدق وسچائی ، سچ بولنے والے مرد و عورت کی فضیلت ،صادقین کا مصداق ،آخرت میں صادقین کے انعام و اکرام ، ان کے مقام و مرتبہ ، مخلوق میں مقبولیت اور سب سے بڑھ کر خالق کے ہاں ان کی محبوبیت کا تذکرہ موجود ہے۔ قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہ صرف قول کی سچائی میں منحصر نہیں بلکہ قول کے ساتھ ساتھ فعل اور اعتقاد میں بھی سچائی کو شامل ہے۔ چند آیات قرآنیہ کامفہوم پیش خدمت ہے :
    «  سورۃ النساء آیت نمبر69 میں مذکورہ4 طبقات کا خصوصی طور پر تذکرہ موجود ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے خود انعام یافتہ قرار دیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’ جوشخص اللہ کی اطاعت کرے گا اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کرے گا تو وہ (آخرت میں ) ان کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا او روہ انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور نیک لوگ ہیں۔ ‘‘
    «  سورۃ المائدہ آیت نمبر 119 میں صادقین کو روزقیامت صدق کی وجہ سے جنت ملنے کا تذکرہ موجود ہے :
    ’’ آج (قیامت)کے دن صادقین کو ان کا صدق نفع اور فائدہ دے گا ،ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ اس خلد بریں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
    «  سورۃ التوبۃ آیت نمبر 119 میں صادقین کی معیت میں رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا:
    ’’ اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور صادقین سے ساتھ رہو۔ ‘‘
    «   سورۃ الاحزاب کی آیات 22تا24میں قول و قرار کے سچے لوگوں کی مدح و توصیف بیان کرتے ہوئے کہا گیا:
    ’’اور جب اہل ایمان نے(کفار کی) فوجوں کو دیکھا تو کہنے لگے :یہ تو وہی ہے جس کا اللہ اور اسکے رسول() نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا، بالکل سچ کہا اللہ اور اسکے رسول() نے ان کے ایمان اور اطاعت میں مزید پختگی آئی، ایمان والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے ساتھ کیے ہوئے اپنے عہد کو سچ کر دکھلایا جبکہ کچھ ان میں پورا کرچکے اور کچھ ابھی انتظار میں ہیں اور ذرہ برابر بھی تبدیل نہیں ہوئے، تاکہ اللہ صادقین کو ان کے صدق کی وجہ سے جزا و انعام عطا کرے۔ ‘‘
    «  سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں صدق و سچائی اور بعض دیگر صفات سے متصف مردو عورت کی جزاء و انعام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاگیا:
    ’’اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کو مقرر کر دیا ہے۔ ‘‘
    «  سورۃ الحجرات آیت نمبر 15اور سورۃ الحشر آیت نمبر8 میں صادقین کا مصداق ذکر کیا گیا ہے۔ دونوں آیات مبارکہ کا مشترکہ طور پرخلاصہ یہ نکلتا ہے کہ صادقین وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، دین اسلام پر شکوک و شبہات نہ کرے ، اپنی جان و مال کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سرانجام دے ، اللہ کی رضااور خوشنودی کے حصول کے لیے کام کرے اور جب کبھی وقت پڑے تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی ممکن نصرت و کوشش کرے۔
    فرامین خدا کی طرح فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صدق کے بہت سے فضائل و مناقب مذکور ہیں ۔اسے دل کا اطمینان ، دنیوی و اخروی نجات کا وسیلہ ، حصول جنت کا سبب ، خدا کی خوشنودی و رضا کا باعث ، مال میں برکت اور خیر کا ذریعہ جبکہ شرمندگی ، ندامت ، پچھتاوے ،ہلاکت اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
    ٭  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’صدق ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ’’ صدیق‘‘ بن جاتا ہے، اور جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور بے شک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم )۔
    ٭  حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ’’خرید و فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک معاملہ ختم کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ دونوں جدا نہ ہوجائیں، اگر ان دونوں نے اس چیز کے بارے سچ بولا اور اس چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کردی یعنی اگر کوئی عیب وغیرہ تھا بھی سہی تو وہ بتلا دیا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں تو اس چیز سے برکت ختم کر دی جاتی ہے۔‘‘(صحیح بخاری)۔
    ٭  حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہے کہ صدق باعث اطمینان ہے جبکہ کذب باعث بے قراری ہے(جامع ترمذی )۔
    ٭  حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’مجھے 6 چیزوں کی تم ضمانت دے دو ، جنت کی ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں۔ جب بولو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو پورا کرو ، امانت ادا کرو ، شرم گاہوں کی حفاظت کرو ، نگاہوں کو غیر محرم سے بچاؤ اور ظلم سے اپنے آپ کو روک کے رکھو۔ ‘‘(صحیح ابن حبان)۔
    ٭  امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکیم لقمان سے پوچھا گیا کہ آپ کو فضل و کمال اور عظیم الشان مرتبہ کیسے ملا؟ انہوں جواب دیا کہ قول و قرار میں صدق وسچائی، امانت داری اور فضول کاموں اور لایعنی و بے کار باتوں سے اپنے آپ کو بچانے کی وجہ سے حاصل ہوا(مؤطا امام مالک )۔
    ٭  حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسول نے فرمایا:
    ’’ جب 4 عادات تمہارے اندر پیدا ہوجائیں تو دنیا کی پریشانیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ4 عادات یہ ہیں :امانت داری ،،صدق ،حسن خلق اور حلال رزق۔ ‘‘(مسند احمد)۔
    ٭  حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ() ! کوئی ایسا عمل بتلائیں جس کی وجہ سے جنت مل جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق۔ کیونکہ صدق کو اختیار کرنے والا شخص نیک ہے اور نیکی کرنے والا پرامن ہے اور پرامن رہنے والا جنت میں داخل ہوگا۔ اس شخص نے پوچھا کہ یارسول اللہ ()!ایسے عمل کی نشان دہی بھی فرما دیں جس کی وجہ سے انسان مستحقِ دوزخ بنتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جھوٹ۔ کیونکہ جھوٹا شخص گناہگار ہے اور گناہ کرنے والا نافرمان ہے اور نافرمانی کرنے والا جہنم جائے گا(مجمع الزوائد و منبع الفوائد)ـ۔
    ٭  حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’ تمہارے اوپر صدق لازم ہے کیونکہ وہ نیک اعمال میں سے ایک عمل ہے اور وہ دونوں یعنی صدق اور نیک عمل جنت میں داخلے کا سبب ہیں اور تم جھوٹ سے بچو کیونکہ یہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور وہ دونوں یعنی جھوٹ اور گناہ دونوں جہنم میں داخلے کا سبب ہیں۔‘‘(موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان)۔
    ایک علمی نکتہ :
    قرآن و سنت میں صادق ،صدوق اور صدیق کے الفاظ موجود ہیں۔ ان کے معنیٰ اور مفہوم میں فرق ہے۔ وہ اس طرح کہ سچے شخص کو ’’صادق‘‘، بہت سچے کو ’’صدوق ‘‘جبکہ بہت ہی زیادہ سچے کو ’’صدیق‘‘ کہا جاتا ہے۔
    لمحہ فکریہ!
    آج کل جھوٹ ایک فیشن بن چکا ہے ۔جو جس قدر جھوٹا اور فراڈ کرنے والا ہوتا ہے لوگ اسے اتنا ہی سمجھ دار سمجھتے ہیں۔ معاشرے
 سے صدق و سچائی کی اہمیت کم جبکہ جھوٹ کی زیادہ ہو رہی ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اس گناہ کا احساس مر چکا ہے حالانکہ یہ ایسا عمل ہے جس سے پورا معاشرہ بے سکونی اور رزق کی تنگی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔
    ٭  ایک حدیث مبارک میں تو جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
    ’’منافق کی 3 نشانیاں ہیں:جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا ہے،وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے ،جب اسکے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری)۔
     ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹ بولنے کو عام معمول کی بات سمجھنے لگے ہیں ۔ اسٹیج ڈراموں ، میلوں ٹھیلوں اور مختلف تقریبات میں جھوٹ کو ضروری تصور کر لیا گیا ہے حالانکہ  آپ نے فرمایا: جوشخص لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے تو اس کیلئے ہلاکت ہو اس کیلئے ہلاکت ہو(سنن ابی داؤد )۔
    ایک زمانہ تھا لوگ قصہ گوئی کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے لیکن اب تو بات بات پر جھوٹ کو بے دھڑک بولا جا رہا ہے۔
    ٭  ایک حدیث پاک میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ’’جب کوئی بندہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ جہنم کے ایسے گڑھے میں جا گرتا ہے جس کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔ ‘‘(کتاب الزھد والرقائق)۔
    یاد رکھیں! جھوٹ والی بات کی وجہ سے لوگ تو ہنس پڑتے ہیں لیکن حدیث پاک کے مطابق  اللہ کے ملائکہ اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے میلوں دور چلے جاتے ہیں(جامع ترمذی)۔
    بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اس معاملے میں بہت اصلاح فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ، میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ آؤ میں تمہیں ایک چیز دیتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے پوچھا کہ بچے کو کیا دینا چاہتی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ کھجور۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کو بلاتی اور کچھ نہ دیتی تو تمہارے نامہ اعمال میں جھوٹ لکھ دیا جاتا(سنن ابی داؤد)۔
    ٭  ایک حدیث پاک میں ہے کہ جھوٹ بولنا رزق کو کم کردینا ہے(مساوی الاخلاق للخرائطی)۔
    مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگائیں کہ بھلاہمارے دین اور ہماری شریعت میں جھوٹ بولنے کی کیا کچھ گنجائش بھی نکلتی ہے؟ جھوٹ کو ایک رسم کے طور پر منانا سوائے جہالت اور نادانی کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟ ۔
مزید پڑھیں:- - - -فرشتے کون ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟

شیئر: