سعودی عرب کی کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی( کاوسٹ) نے حال ہی میں ایک سٹڈی میں دنیا بھر میں زمین کی تباہی کے اثر کو کم کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ ڈیزائن کیا ہے۔
سعودی یونیورسٹی کا مقصد زمین میں ٹوٹ پھوٹ کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنا، غذائی اور آبی تحفظ، سماجی استحکام اور مختلف جانوروں اور پودوں کی ایک جگہ موجودگی سے جنم لینے والے متوازن ماحول کو مزید بہتر بنانا ہے۔
مزید پڑھیں
-
سعودی کاشتکار نے بنجر زمین کو زرعی فارم میں کیسے تبدیل کیا؟Node ID: 797891
یہ سٹڈی ملٹی ڈسپلینری سائنس جرنل ’نیچر‘ میں شائع ہوئی ہے اور سنہ 2050 تک زمین کی خستہ حالی کو پلٹنے کے لیے کئی حل پیش کرتی ہے۔
تجویز کردہ ایک طریقے کے مطابق سِی فوڈ کی پیداوار اور استعمال میں اضافہ کرنا ہے تاکہ زرعی زمین پر پڑنے والے بوجھ کو کم کیا جائے۔
اسی مقصد کے تحت ایک اور حل یہ تجویز کیا گیا ہے کہ غذا کے ضیاع میں 75 فیصد تک کمی لائی جائے کیونکہ سٹڈی کے مطابق ایک تہائی غذا ضائع کر دی جاتی ہے جس کی قیمت ایک ٹریلین ڈالر سالانہ ہے۔
اس کے علاوہ سٹڈی میں یہ مشورہ بھی دیا گیا کہ پائیدار بندوبست اور اچھے نظم و نسق کے ذریعے 50 فیصد کے قریب خستہ حال زمین کو بحال کیا جائے۔
سعودی یونیورسٹی نے رپورٹ کیا کہ غذائی پیداوار کے لیے ہمارے سیارے کی برف سے بچی ہوئی 34 فیصد زمین استعمال کی جا رہی ہے۔ اگر موجودہ صورتِ حال ایسے ہی جاری رہی تو 2050 تک یہ شرح 34 سے بڑھ کر 42 فیصد تک جا پہنچے گی۔

سائنس دانوں نے تجویز دی کہ معاشی ترغیبات کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے، خوراک کے عطیات میں اضافہ کیا جائے اور 13.4 ملین سکوائر کلو میٹر زمین بچانے کے لیے ریستورانوں سے کہا جائے کہ وہ کھانے والوں کے لیے غذا کے چھوٹے پورشن بنائیں۔
فرنینڈو مائیسٹرے نے، جو کنگ عبداللہ یونیورسٹی میں ماحولیاتی سائنس اور انجینیئرنگ کے پروفیسر ہیں، عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’سعودی عرب پہلے ہی غذائی ضیاع کو کم کرنے کے لیے بہت کچھ کر رہا ہے اور زمین کی بحالی کی کوششوں میں لگا ہوا ہے لیکن اگر پالیسی ساز، سٹڈی میں پیش کردہ کچھ کلیدی سفارشات پر عمل درآمد کر لیں تو اس سے بہت فائدہ ہوگا۔‘
’ان میں ریستورانوں میں کھانے کے چھوٹے پورشن کا فروغ، سپر مارکیٹیوں اور ہوٹلوں سے تقاضا کرنا کہ اس خوارک کو جس کی معیاد ختم ہونے والی ہو، عطیہ کردیں یا اسے کم قیمت پر فروخت کریں۔ اسی طرح کمپنیوں سے کہا جائے کہ وہ ضیاع میں کمی کا منصوبہ سامنے لائیں۔‘
مائیسٹرے کے مطابق خوراک کے ضیاع کو کم کرنے سے مملکت میں پانی کے پہلے ہی سے پریشر والے ذخائر پر دباؤ کم ہوگا اور گیسوں کا اخراج بھی گھٹ جائے گا۔ اس سے غذائی تحفظ کا حصول ہوگا اور پیسے بھی بچیں گے۔ ‘
سٹڈی میں پائیدار سی فوڈ کی پیداوار کی اہمیت خاص طور پر اجاگر کی گئی اور وضاحت کی گئی کہ کس طرح آبی کاشت کی مخصوص پالیسیوں سے زمین کے وسائل پر دباؤ میں کمی آ سکتی ہے اور جنگلات کے خاتمے کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔
فرنینڈو مائیسٹرے کا کہنا تھا کہ ’غذائی نظام کی تبدیلی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار زمین کی بحالی، پائیدار سی فوڈ کے امکانات کو بروئے کار لانے اور اقوام میں تعاون بڑھانے سے ہم اس رجحان کو روک سکتے ہیں اور زمین کی خستہ حال کو پلٹ سکتے ہیں۔‘
یہ سڈی ’ای اون کلیکٹیو‘ اور زمین کی ویرانی کو روکنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے کنوینشن کے ساتھ مل کر مکمل کی گئی تھی۔