Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” میری مدد اس نے کی،اسکی مدد میں کروں گی“

اُم مزمل۔جدہ
وہ اسائنمنٹ مکمل کرنے میں اتنی منہمک تھی کہ لائبریری میں اپنے ارد گرد کی میزیں خالی ہوجانے سے بے خبر رہی۔ وہ جو آج 
 والدہ کی نصیحت پر من و عن عمل کرنے کا ارادہ کئے اپنا اسائنمنٹ بذات خود مکمل کرکے ہی لائبریری سے واپسی کا سوچے بیٹھا تھا ، بار بار دیوار گیر گھڑی پر نگاہ ڈالتا تھا۔وہ ان طلباو طالبات پر رشک کر رہا تھا جو پڑھائی کا کام سمیٹ کر گھر روانہ ہوچکے تھے ۔ وہ اپنے تمام دوستوں کو گھر جانے کا کہہ چکا تھا کہ کچھ ہوجائے، آج تو مام کی بات پوری کرنی ہی کرنی ہے لیکن جب اس کی میز پر رکھی ریفرنس بکس پر اس کی نظر جاتی تو سانس لینا دشوار لگتا اور جب اپنے تیار کام کو دیکھتا تو ایک ہی بات ذہن میں آتی کہ آخر اتنی ضخیم کتابیں پڑھنے اور لکھنے میں مصنف نے اپنی عمر کا کتنا حصہ صرف کیا ہوگا ؟
جیسے ہی اس نے اپنااسائنمنٹ مکمل کرکے فائل اپنے بیگ میں رکھی، اس نے نگاہ اٹھائی تو دیکھا قریب کی تمام میزیں خالی ہوچکی ہیں۔ دور ایک میزپر بیٹھا طالب علم اپنی کہنی میز سے ٹکائے ،اپنی ٹھوڑی ہتھیلی پر رکھے بڑے اہتمام سے دیوار گیر گھڑی کو دیکھ رہا تھا جیسے اس کے سامنے گھڑی اس کی مرضی کا وقت بتائے گی۔ اسکی بھی نظر گھڑی پر پڑی اور اتنی دیر ہوجانے پر پریشان ہو کر اٹھی کہ اب کوئی اس کے گھر جانے والی روٹ کی بس ملنے میں کتنی دیر لگے گی۔ اپنا کام مکمل کرنا ہے ، کل آخری دن ہے، آج ہی اس کو مکمل کرکے گھر جانا چاہئے۔ویسے بھی یہ اس یونیورسٹی میں پہلے سمسٹر کا پہلا اسائنمنٹ ہے۔ چچا جان اور چچی جان اسکی وجہ سے پریشان ہو رہے ہوں گے۔ یہ خیال آتے ہی اسکے قدموںمیں تیزی آگئی۔
وہ جو اپنے آپ کو اکیلا ہی اس مشکل اسائنمنٹ کا تختہ¿ مشق سمجھ رہا تھا ،اسے اسی ریفرنس بک کے ساتھ دیکھ رہا تھا لیکن یہ کیا وہ جلدی میں اس لائبریری سے ایشو کرائی گئی کتاب کو میز پر ہی چھوڑ گئی۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس کی کتاب اٹھائے باہر کا رخ کیا کہ اسے آواز دیکر کہے کہ” مس، آپ اپنی کتاب تو یہاں ہی بھول کر جا رہی ہیں لیکن جب وہ لائبریری سے باہر آیا تو اسے ایک عجیب صورتحال سے دوچار پایا۔ زور دار آواز میں کہا کہ واپس آجائیے، ہمارا اسائنمنٹ آج ہی مکمل ہو سکتا ہے۔ دیکھیں یہ ہماری ریفرنس بک ہمیں مل گئی ہے۔ اس کے ساتھ درجن بھر وہ لڑکے جو اسکے گرد غیر محسوس طریقے سے گھیرا بنائے اس کا راستہ مسدود کئے دے رہے تھے ، اسے اس کا ساتھی سمجھ کر آناًفاناً ایسے اس سے دور ہوئے جیسے کہ جو کچھ اس نے سمجھا بھی ہو تو وہ اتفاقیہ ہی ہوگا کیونکہ وہ سب تو در اصل اپنے اپنے راستے پر ہی جارہے تھے۔
وہ اس کے سامنے پانی کا گلاس رکھے کہ رہا تھا ” مس ،آپ پانی پی لیں“۔ اسکے ہاتھ اتنے لرز رہے تھے کہ آدھا پانی وہ پی سکی اور 
آدھا اسکے اسکارف پر ہی گر گیا ۔وہ کوئی سوال اس سے نہیں کر رہا تھا لیکن وہ خود ہی بتا رہی تھی کہ اس نے آج ہی لائبریری کارڈ حاصل کیاتھا اور چاہتی تھی کہ آج ہی کام مکمل ہو جائے اور اس جگہ وہ کسی اسٹوڈ نٹ کو جانتی بھی نہیں۔ گھڑی دیکھی نہیں اور اتنی دیر ہوگئی۔
وہ اس کی فائل دیکھ کر حیران تھا کہ یہ کام اس نے صرف ایک دن میں مکمل کیا ہے ۔اس نے اپنی گھنٹوں کی محنت اس کے سامنے رکھی۔ اسائنمنٹ کا پہلا حصہ بھی وہاں مکمل نہیں ہو سکا تھا ۔وہ کہہ اٹھی کہ اگر ریفرنس بک موجود ہو تو یہ اسائنمنٹ کل جمع ہو سکتا ہے لیکن مجھے تو کتاب ہی آج مل سکی تھی ۔
وہ اس ذہین لڑکی کو کہہ رہا تھا ” کیا واقعی“۔ ”ہاں“ وہ کہہ رہی تھی لیکن لائن میں انتظار کرنا کہ کب باری آئے گی اور اپنی مطلوبہ کتاب مل سکے گی کہ نہیں، کیونکہ اسکی ضرورت تو ساری کلاس کو ہوگی۔ وہ اس کی بات سن کر حیرت سے سوچ رہا تھا کہ کسی فرد کے لئے کتابیں حاصل کرنا کتنا آسان ہے لیکن اس کا مطالعہ کرنا مشکل اور کسی کے لئے رش میں جانا مشکل ہے اور تیز رفتار مطالعہ کرکے اپنے مضمون سے متعلق معلومات حاصل کرنا نہایت آسان ۔
وہ کہہ رہا تھا کہ ایک کیا میں تو وہ تمام ریفرنس بکس صبح ہی صبح لائبریرین سے ایشو کروا لوںگا جن کو ہمارے پروفیسر نے ریفر کیا ہے۔ وہ بتانے لگی کہ میں کلاس شروع ہونے سے آدھ گھنٹہ پہلے ہی یونیورسٹی پہنچ جاتی ہوں۔ اسی وقت مجھے بکس مل جائیں تو میں تیسرے 
پیریڈ تک سر کی کلاس شروع ہونے تک مکمل کرلوں گی،پھر اچانک چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی، اب تو وہ لوگ موجود نہیں ہونگے۔
وہ اس کا خوف سے پیلا پڑتا چہرہ دیکھ چکا تھا۔اس واقعے کو گزرے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔ کوئی اور جگہ ہوتی یا اسکے تمام دوست 
 کا گروپ اسکے ساتھ ہوتا تو وہ ان لڑکوں کو اتنی اسانی سے جانے نہیں دیتا ۔ وہ دونوں آگے پیچھے لائبریری سے مین گیٹ کی جانب چلے ۔ وہ اس سے کئی قدم آگے بڑھ گیا تھا ۔وہ اسی جگہ پر رک گئی جہاں اسے چاروں جانب سے غیر محسوس طور پر گھیرکر پریشان کرنے کا ابھی آغاز ہو جاتا کہ وہ قدرت کی طرف سے غیبی مدد کی صورت میں اسکی کتاب لئے چلا آیا تھا۔ اس نے اسی جگہ پر رک کر اپنے آپ سے عہد کیا ” میری مدد اس نے کی ہے ، میں اسکی ہر ممکن مدد کروں گی۔ اسائنمنٹ بنانا ہو یا کوئی بھی کام جو میرے بس میں ہو گا۔
وہ بس اسٹاپ پر پہنچتے ہی کہنے لگا کہ آپ کافی ذہین ہیں اس لئے کوئی پیریڈ مس بھی کر دیں گی تو وہ کور کر لیں گی لیکن اگر آپ محسوس نہ کریں تو میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ آپ ظہر کے وقت ہی گھر واپس چلی جایا کریں۔ وہ رش کاٹائم ہوتاہے اس کے بعد سناٹا ہو جاتا ہے ۔
2 سال تک وہ اسکے ہر اسائنمنٹ کا کام اپنے ذمہ لیتی رہی اور وہ اس کی نگرانی کا کام ایسے انجام دیتا جیسے وہ اس کے گھر کی فرد ہو۔ اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام ترتیب دیا گیا تو دونوں کا ہی نام لسٹ میں شامل تھا ۔وہ اپنے چچاجان کے گھر اس لئے رہتی تھی کہ اس کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ وہ یہ بات جانتا تھا لیکن ویزے کے لئے تمام منتخب اسٹوڈنٹس کو اپنے اپنے ڈاکیومنٹس پر سائن کرکے جمع کرانا تھااور آج ہی یہ کام مکمل کرنا تھا۔ وہ فون پر بتا رہا تھا کہ اس کا سائن کرنے کے لئے آنا ضروری ہو گا اور وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اس وقت گھر سے نہیں آسکتی ۔چاہے کام ہو یا نہ ہو ۔ گھر سے بیرون ملک یونیورسٹی کے طلباو طالبات کے ساتھ جانے کی اجازت مل گئی، یہ بہت ہے۔
دوسرے دن معلوم ہوا کہ اس کا کام ہو چکا ہے۔ وہ سب ڈھائی ہفتے کے لئے تعلیمی دورے پر گئے ۔مختلف ممالک کے تعلیمی اداروں کا جائزہ لیا اور اپنے مقالے بھی پیش کئے۔ اسی دوران اسے معلوم ہوا کہ وہ شہر کے ان چند امیر لوگوں میں شامل ہے جو اپنے نجی سفر کے لئے ذاتی ہیلی کاپٹر استعمال کرتے ہیں ۔
وہ اپنی مام کو اس کے گھر رشتہ لے جانے پر راضی کر چکا تھا لیکن اس کے والد کسی صورت ایسے رشتے پر راضی نہ تھے۔ وہ اسکے چچا کے گھر اپنی والدہ کے آنے کی اطلاع دینے آیا تھا مگر اسے پتا چلا کہ وہ تو جاب کی شروعات کرنے کہیں دوسری جگہ چلی گئی ہے لیکن ان بوڑھے لوگوں کو جگہ کا نام تک نہیں معلوم اور خود اس نے رابطہ بھی نہیں کیا۔وہ حیرت سے اپنے پاس موجود اس کے ڈاکیومنٹس دیکھ رہا تھا کہ اس کی سفری دستاویزات پر اس نے خود پریکٹس کرکے سائن کردئیے تھے اور اسکا ویزا لگ گیا تھا۔ وہ اپنی تعلیمی دستاویزات ، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کے بغیر کہاں جا سکتی تھی۔ وہ سب تو اسٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام سے واپسی کے بعد اسی کے پاس موجود تھا۔ ہر ہر جگہ وہ اسے تلاش کیا کرتا تھا کہ معلوم نہیں اسے کون سی ایسی جگہ مل گئی تھی جو اس کی پہنچ سے دور تھی ۔
وہ کئی سال کے بعد یہاں آیا تھا تاکہ اس گھر میں جہاں وہ رہتی تھی، گوا ہ بنا کر کہے کہ وہ تو یہی ہمیشہ کہتی تھی کہ عورت کو تعلیم تو خوب حاصل کرنی چاہئے لیکن مردوں کی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں پرنہیں ڈالنا چاہئے تو ایسی کیا بات ہوگئی کہ وہ گھر چھوڑ گئی؟
وہاں ایک محلے دار سے ملاقات ہوگئی جو بتا رہی تھی کہ ایک صاحب پتہ پوچھتے آئے تھے اور جب معلوم ہوا کہ وہی سامنے ہے جس کی تلاش میں آئے تھے تو کہا کہ تم جیسی چالاک لڑکیاں امیر بننے کے لئے ایسے ہی راستے پر چلتی ہیں اور اس گاڑی کے گزرنے کے بعد وہ پہلی بس میں سوار ہوکر ایسا گئی کہ آج تک واپس نہیں آئی۔
وہ گاڑی کی جو پہچان بتارہی تھی، وہ اس کے والد ہی کی تھی اور وہ واپس آگیا۔ اس نے اس کے جانے کے بعد صرف اس کی خواہش 
کی تکمیل میں مصروف رہ کر سیکڑوں اسکول بنوا چکا تھا جہاں بچوں کو مفت تعلیم فراہم کی جاتی تھی۔ وہ اپنی سرخ آنکھوں کو بے دردی سے رگڑتا، تیز ڈرائیو کرتا سوچ رہا تھاکہ” بھلا دل پر بھی کسی کواختیار ہوتا ہے کیا ۔“
٭٭جاننا چاہئے کہ عورت کوسخت ضرورت کے تحت ہی کام کی غرض سے گھر سے باہرجانا چاہئے۔ 
 

شیئر: