Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہانی ایک جھوٹے دعویدار کی

یہ شخص نبی تو درکنار ایک سمجھدار آدمی بھی کہلانے کا مستحق نہیں ، مرگی کا مریض تھا، انگریز نے اس کو تیار کیا
 
 * * * *عبدالمالک مجاہد۔الریاض* * *

گزشتہ سے پیوستہ

    گزشتہ ہفتہ سے ہم آپ کو ایک جھوٹے نبی ’’مرزا غلام احمد قادیانی‘‘ کی داستان سنا رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ مرزا احمد نے یکدم اپنے نبی ہونے کا اعلان نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ وہ گرگٹ کی طرح اپنے رنگ بدلتا چلا گیا۔ انگریزوں کے اس خود کاشتہ پودے کی حکومت وقت نے خوب آبیاری کی ـ۔اگر ہم مرزا غلام احمد قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص نیم پاگل قسم کا انسان تھا۔ اس کو مالیخولیا یا مراق کی بیماری بھی تھی۔
    ہم تھوڑا سا آگے بڑھتے ہیں اور آپ کو بتاتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کس قسم کی ہرزہ سرائی کی تھی۔ قادیانی تحریروں کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ مرزا کو (معاذ اللہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری کا بھی دعویٰ تھا۔ قرآن نے فرمایا ہے’’ ورفعنا لک ذکرک‘‘ تو قادیانیوں نے کہا کہ یہ مرزا کے متعلق ہے۔ اسی طرح’’ اِنا فتحنا لک فتحا مبینا‘‘کے بارے میں کہا کہ اس سے بھی مراد مرزا ہے ۔ یہ بھی لکھا کہ مرزا کو بھی حوض کوثر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا کا بیٹا لکھتا ہے کہ ’’ مرزا نے نبوت محمدیہ کے تمام کمالات حاصل کر لیے‘‘ اور اتنا آگے بڑھ گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو بہ پہلو لا کھڑا کیا۔
    مرزا غلام احمد کو چونکہ انگریز کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے اس نے لکھا ’’نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم )کی زندگی میں اسلام ہلال( پہلی رات کے چاند ) کی طرح تھا اور میرے زمانے میں چودھویں کے چاند جیسا ہو گیا ہے۔
    خطبہ البامیہ میں کہتا ہے: میری فتح محمد رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی فتح سے بہت بڑی ہے۔
    اعجاز محمدی میں لکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چاند گرہن لگا جبکہ میرے لیے چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگا۔
    مرزا غلام احمد کا ایک مرید قاضی ظہور الدین اکمل نے مرزا کی شان میں کچھ اشعار کہے۔ یہ اشعار مرزا کی زندگی میں شائع ہوئے، اسے سنائے بھی گئے مگر اس نے ان کی تردید نہ کی۔ آئیے ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ان اشعار کو پڑھتے ہیں
:
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں   
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شان میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل  
 غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)
    قارئین کرام! آگے بڑھتے ہوئے اب ہم دیکھتے ہیں کہ مرزائی کلمہ کیا ہے۔ مرزا کا بیٹا لکھتا ہے: لا الہ الا اللہ محمد رسو ل اللہ کے مفہوم میں ایک نبی مرزا کا اضافہ ہو گیا ہے۔
    مرزا کا بیٹا کہتا ہے: ڈاکٹر میر محمد اسماعیل نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت خلیفہ المسیح اول حکیم نو ر الدین فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کا ایک کلمہ ہوتا ہے اور مرزا کا کلمہ یہ ہے ’’میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔
    قارئین کرام: مجھے یاد ہے کہ ایک مدت پہلے افریقہ میں قادیانیوں کی عبادت گاہ کے اوپر کلمہ کچھ یوں لکھا ہوا تھا :لا الہ الا اللہ احمد رسول اللہ۔
     واضح رہے کہ یہاں احمد سے مراد وہ مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں۔ یہ تصویر 1974کی تحریک ختم نبوت کے دور میں اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ افریقہ میں قادیانی دعوت پھیلنے کے حوالے سے عرض کر دوں کہ بلاشبہ ایک زمانہ تھا مسلمانوں نے اس مسئلہ پر دنیا والوں کو اتنا خبردار نہیں کیا تھا مگر 1974ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد علماء متحرک ہوئے۔ انہیں جن جن علاقوں میں معلوم ہوا کہ قادیانیوں نے عام بھولے بھالے مسلمانوں کو ورغلایا ہے تو انہوں نے اپنا خوبصورت اور سنہری کردار ادا کیا اور بطور خاص افریقہ کے مسلمانوں کو قادیانیوں کے دخل و فریب سے مطلع کیا جس کے نتیجہ میں ان کی تبلیغ خاصی رک گئی۔ الحمدللہ بہت سارے لوگ دوبارہ مسلمان ہو گئے۔ آج سے18سال قبل جب میں نائیجریا اور نائیجر کے دورے پر گیا تو میں نے وہاں کی مسلمان تنظیموں کے ذمہ داران سے قادیانیوں کی نشاطات کے بارے میں بطور خاص معلومات حاصل کیں تو مجھے اطمینان ہوا کہ اس دعوت کے سامنے بند باندھا جا چکا ہے۔ لوگ قادیانیوں کے دجل و فریب میں کم ہی آتے ہیں۔
    مرزا غلام احمد قادیانی انبیاء کی توہین کا بھی مرتکب ہوتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’ اللہ نے مجھے تمام انبیاء کا مظہر ٹھہرایا ہے اور تمام نبیوں کے نام میری طرف منسوب کیے ہیں۔ میں آدم ہوں ‘ میں شیث ہوں ‘ میں نوح ہوں‘ میں ابراہیم ہوں‘ میں اسماعیل ہوں‘ میں یعقوب ہوں‘ میں یوسف ہوں ‘ میں موسی ہوں ‘ میں داؤد ہوں‘ میں عیسی ہوں‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا میں مظہر اتم ہوں‘ یعنی ظلی طور پر محمد اور احمد ہوں۔
    قارئین کرام! اس تحریر کو پڑھ کر خود ہی اندازہ کر لیں کہ مرزا غلام احمد کی سوچ و فکر کیا تھی۔ یہ شخص نبی تو درکنار ایک سمجھدار آدمی بھی کہلانے کا مستحق نہیں تھا۔ جس طرح آپ اوپر کی سطور میں پڑھ چکے ہیں یہ شخص مرگی کا مریض تھا اسے مراق کی بیماری تھی۔ بس انگریز نے اس کو تیار کیا ۔
    قارئین کرام! اب ذرا سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں آئیے پڑھتے ہیں کہ مرزا ُن کی کس طرح گستاخی اور توہین کا مرتکب ہوتا ہے۔ مرزا نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی اس قدر گستاخی اور توہین کی کہ ایک مسلمان تو کجا غیر مسلم بھی ایسی ہفوات کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ چند عبارتیں ملاحظہ کرتے ہیں۔ وہ انجام آتھم میں لکھتا ہے ’’ مسیح کا کنجریوں کی طرف میلان تھا‘‘ (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)۔ مزید لکھتا ہے: نادان اسرائیلی موٹی عقل والا‘ گالیاں دینے کی عادت تھی جھوٹ بولنے کی بھی کسی قدر عادت تھی (خزائن) ۔ایک اور جگہ لکھتا ہے: یسوع شرابی کبابی اور خراب چلن آدمی تھا۔
    قارئین کرام! انبیائے کرام تو مقدس مظہر اور گناہوں سے پاک صاف شخصیات ‘ اللہ کے نہایت برگزیدہ بندے تھے۔ البتہ مرزا غلام احمد تمہارا کردار‘ اور نفس پاک نہ تھا تم بد باطن تھے اس لیے انبیاء اور سیدناعیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں تمہارے اس طرح کے خیالات اور عقائد تھے۔
    اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا ہے۔ وہ اب تک آسمانوں پر زندہ ہیں۔ نہ تو قتل کیا گیا نہ ہی سولی پر چڑھا گیا بلکہ وہ قیامت کے نزدیک دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کا ظہور دمشق کی مسجد کے مینارے پرہوگا اور وہ قیامت کے نزدیک دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اس عقیدہ کے دلائل قرآن کریم ‘ صحیح احادیث ‘ صحابہ و تابعین کے اقوال سے ثابت ہیں۔ ایک وقت تھا جب مرزا غلا م احمد بھی اس عقیدہ کا قائل تھا وہ اسے قرآنی دلائل کی روشنی میں برحق سمجھتا تھا مگر جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا ہے، مرزا گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا تھا۔ جنوری 1891میں مرزا اس عقیدے سے منحرف ہو گیا اور وفات مسیح کا اعلان کر دیا۔ نزول مسیح کا مصداق خود کو قرار دے ڈالا۔ جب اس سے کہا گیا کہ پہلے تم اس عقیدہ کے قائل تھے اب کیا ہوا تو کہنے لگا کہ یہ سب کچھ وحی الہٰی یعنی الہام سے کہا گیا ہے۔ لوگوں نے جب اس سے ان الہامی الفاظ کو بیان کرنے کا مطالبہ کیا تو وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا ۔ پھر ستمبر 1891میں مزعومہ عقیدے کے الفاظ گھڑ کر الہام کے طور پر پیش کر دئیے۔
    مرزا غلام احمد او راس کے چہیتے صحابہ کرامؓ اور سیدنا ابوبکر ؓو عمرؓ کی توہین بھی کر ڈالتے تھے۔ مثلاً ماہنامہ المہدی میں مرزا کا ایک چہیتا لکھتا ہے کہ ابوبکر و عمر کیا تھے؟ وہ تو غلام احمد قادیانی کی جوتیوں کے تسمے کھولنے کے بھی لائق نہ تھے (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔ نقل کفر‘ کفر نہ باشد)۔مرزا غلام احمد حرمین شریفین کی توہین کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’لوگ معمولی اور نفلی طور پر حج کرنے کو بھی جاتے ہیں مگر اس جگہ( قادیان) میں آنا نفلی حج سے زیادہ ثواب ہے اور غافل رہتے ہیں نقصان اور خطرہ ہے ،کیونکہ سلسلہ آسمانی ہے اور حکم ربانی (آئینہ کمالات اسلام ص 352)۔ پھر ان لغو نظر یات کی شعر میں پوری ترجمانی کرتا ہے۔
زمین قادیان اب محترم ہے
 ہجوم خلق کا ارض حرم ہے
    قارئین کرام!اب ذرا دل تھام کر مرزا غلام احمد کے جہاد کے حوالے سے نظریات پڑھتے ہیں جس کے لیے اسے تیار کیا گیا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’اب اسلام کی خاطر جہاد کرنا حرام اور قطعی حرام ہے، جو لوگ انگریز سامراج سے جہاد کرتے ہیں وہ حرامی اور بدکار ہونے کے ساتھ ساتھ احمق بھی ہیں۔ اس نے جہاد کے حرام پر اشعاربھی لکھے تھے۔ جس کا ایک شعر اس کے خیالات کی ترجمانی کے لیے کافی ہے۔
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دیں کے لیے حرام ہے اب جنگ اور قتال
    قارئین کرام!آئیے اب ذرا اس شخص کے اخلاق کی طرف دیکھتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ انگریز نے جس شخص کو مسلمانوں میں جذبۂ جہاد کو ختم کرنے کے لیے کھڑا کیا تھا وہ کس قسم کے اخلاق کا مالک تھا ۔ مرزا اپنے ایک مخالف کے متعلق لکھتا ہے :
    جھوٹا نبی بیماریوں کے نرغے میں: مرزا کے بقول انبیاء اور اللہ کے مامور خبیث اور ذلیل بیماریوں سے محفوظ رکھے جاتے ہیں (ملفوظات مرزا) لیکن مرزا خود کیسی کیسی بیماریوں کا شکار تھا، ملاحظہ ہو:    
      ٭ میں ایک دائم المرض آدمی ہوں (ضمیمہ اربعین) ۔
     ٭ کثرتِ بول اور دوران سر کی بیماری بھی تھی (حقیقۃ الوحی)۔
    ٭بعض اوقات دن رات میں سو سو مرتبہ بھی پیشاب آتا تھا (براہین احمدیہ)۔
    ٭کمی خواب اور تشنج دل کی بیماری بھی تھی (خزائن) ۔
    ٭مرزا نے زبانی اقرار کیا کہ وہ ہسٹیریا اور مراق (مالیخولیا، پاگل پن)کا مریض ہے(ملفوظات، سیرت المہدی) ۔
    ٭مرزا کا دایاں ہاتھ بچپن میں ٹوٹ گیا تھا، پانی کا برتن اٹھا کر دائیں ہاتھ سے نہیں پی سکتا تھا (سیرت المہدی) ۔
    خود ہی سوچیے کیا ایسا دیوانہ، پاگل اور دائمی مریض نبی ہو سکتا ہے؟حَاشَا وَکَلَّا۔
    مرزا قادیانی انگریز کا خود کاشتہ پودا: مرزا اور اس کا پورا خاندان انگریز سامراج کا مکمل وفادار تھا اسی لیے انگریز نے جھوٹی نبوت کا ڈھونگ رچانے کے لیے مرزا کا انتخاب کیا۔ مرزا کو ان حقائق کا نہ یہ کہ اعتراف تھا بلکہ اس پر فخر وناز بھی تھا۔ مرزا خود لکھتا ہے: میں ایسے خاندان سے ہوں جو گورنمنٹ انگریز کا پکا خیر خواہ ہے (خزائن)۔
    ٭میں 20 سال سے انگریزوں کی حمایت میں کتابیں لکھ رہا ہوں اور وہ بھی مختلف زبانوں میں (مجموعہ اشتہارات)۔
    ٭خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے میری اور میری جماعت کی پناہ اس سلطنت (انگریز) کو بنا دیا ہے (خزائن)
     ’’جو امن ہمیں اس سلطنت کے زیر سایہ حاصل ہے وہ نہ مکہ معظمہ میں مل سکتا ہے اور نہ مدینہ میں۔‘‘ (خزائن) ۔
    ٭میری جماعت گورنمنٹ انگریز کی ایک وفادار فوج ہے(خزائن) ۔
    ٭اطاعت گورنمنٹ میری شرائط بیعت میں داخل ہے (خزائن) ۔
    مرزا کی جھوٹی پیش گوئیاں: سچا نبی اللہ تعالیٰ کی وحی سے پیش گوئی کرتا ہے اور اس کی کوئی پیش گوئی جھوٹی نہیں ہوتی۔ مرزرا چونکہ انگریز کا ایجنٹ اور جھوٹا نبی تھا، اس لیے اس کی ایک بھی پیش گوئی سچ ثابت نہ ہو سکی۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
    ٭مرزا نے پہلی شادی 1852ء میں کی اور دوسری شادی 1884ء میں ہوئی۔ 20 فروری 1886ء کو مرزا نے اشتہار دیا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد بھی تیرے نکاح میں آئیں گی اوران سے اولاد پیدا ہو گی‘‘ (مجموعہ اشتہارات)۔
     اس اشتہار کے بعد مرزا 22 سال زندہ رہا لیکن کسی بابرکت عورت سے نکاح تو کجا کسی بے برکت عورت سے بھی نکاح نہ ہوسکا اور نہ اولاد پیدا ہوئی۔
     ٭مرزا نے کہا ’’اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے بتایا کہ تیری عمر80 سال یا پانچ چھ سال زیادہ یاپانچ چھ سال کم ہو گی‘‘ (براہین احمدیہ:97/5، خزائن: 258/21) لیکن مرزا 1839-40ء میں پیدا ہو کر 1908ء میں 69-68سال کی عمر پاکر مرگیا اوراپنی ہی پیش گوئی جھوٹی ثابت کر گیا۔
    واحد سچی پیش گوئی اور جھوٹی نبوت کا منطقی انجام: مرزا کی تمام پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں سوائے ایک پیش گوئی کے جو حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی اور مرزا کی قیامت تک رسوائی کا باعث بن گئی۔ تحریر، تقریر اور مناظرے، ہر انداز میں جس شخصیت نے مرزا کا ناطقہ بند کیا اور ’’فاتح قادیان‘‘ کا لقب پایا، وہ تھے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ۔ مرزا اِن سے اس قدر بوکھلایا کہ 15اپریل 1907ء کو ایک اشتہار دیا جس میں واضح الفاظ میں لکھا کہ ’’ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے ، وہ سچے کی زندگی میں مرجائے گا اور وہ بھی طاعون یا ہیضہ کی بیماری سے‘‘ (مجموعہ اشتہارات: 705-706/2)۔
     مرزا کی یہ پیش گوئی من وعن پوری ہوئی اور وہ 26مئی 1908 کو ہیضے کی بیماری سے مر گیا۔ مرنے سے کچھ دیر پہلے اس نے اپنے سسر میر ناصر نواب سے کہا کہ مجھے وبائی ہیضہ ہو گیا ہے(حیات ناصر، ص:14، طبع 1927ء، از یعقوب علی عرفانی قادیانی)۔
     جبکہ شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ رحمہ اللہ اس کے بعد40 سال زندہ رہے اور 15مارچ 1948ء کو سرگودھا میں وفات پائی۔ اس طرح جھوٹا (مرزا) سچے (مولانا ثناء اللہ رحمہ اللہ)کی زندگی میں مرکر اپنا جھوٹا ہونا ثابت کر گیا۔
    جھوٹے نبی کی عبرتناک اور رسوا کن موت: مرزا کی موت احمدیہ بلڈنگ، رام گلی، برانڈرتھ روڈ، لاہور میں ہوئی۔ اگر مرزا واقعی نبی تھا تو اسے اسی جگہ دفن کرنا چاہیے تھا کیونکہ حدیث کے مطابق نبی کو وہیں دفن کیا جاتا ہے جہاں وہ فوت ہوتا ہے(سنن ابن ما جہ)۔ لیکن مرزائیوں نے جھوٹے نبی کو قادیان میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا، پھر جونہی مرزا کی ارتھی احمدیہ بلڈنگ سے باہر لائی گئی، ختم نبوت کے متوالوںاور زندہ دلانِ لاہور نے اس پر اینٹوں، روڑوں، پتھروں، مٹی، گوبر اور گندگی کی بارش کر دی اور ذلت ورسوائی کی یہ آخری سلامی ریلوے اسٹیشن پہنچنے تک جاری رہی۔ پھر اسے اسٹیشن سے مال گاڑی پر لاد کر قادیان لے جایا گیا اور قادیان کی خاک سے اٹھنے والے اس جھوٹے نبی کو قادیان ہی کی خاک میں دفن کردیا گیا۔
مزید پڑھیں:- - - - -شب برات کی فضیلت ، حقیقت کیا ہے؟

شیئر: