Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داعی، ایک عاجز و دلگداز شخصیت

داعی دعوت دینے والا،فلاح کی طرف بلانے والا ، اچھے اور برے کا فرق بتانے والا ،کامیابی جس کے آگے ہاتھ باندھے پھرتی ہے
 
 رضی الدین سید۔کراچی
دنیا کے اربوں انسانوں میں سے اگر کوئی شخصیت بالکل ہی الگ تھلگ نظر آئے،وہ جو درد میں ڈھلی ہوئی ہو، شیریں مقال ہو، دوستوں کا دوست ہو، اور یکسربے غرض ہو ،لگے جیسے کوئی تڑپ ہے اس کے اندر ،کوئی بے کلی ہے اس کی تعمیر میں، جو یوں بے قرار ساپھرتا رہتاہے،تو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ شخص کوئی داعی ہے،کوئی بلانے والا ہے ، دعوت دینے والا، آگ کے شعلوں سے بچانے والا، سمجھا نے والا کہ’’ تما م دکھوں ، تمام بے سکونیوں کا علاج صرف اور صرف قرآن پاک کے نفاذ میں پوشیدہ ہے‘‘ !۔
    داعی ایک نرالی مخلوق ہوتا ہے ۔ امتیازی حیثیت رکھتاہے۔اس کی خوبی ہوتی ہے کہ لوگوں کے لئے بہت عاجز ہوتا ہے۔دوسروںکا دکھ اس کا اپنا دکھ ،اور دوسروں کی خوشی اس کی اپنی خوشی بن جاتی ہے۔ وہ چلتا ہے تو انکساری ہمراہ ہوتی ہے۔ وہ خود کو کبھی آپے سے باہر نہیںکرتا،کبھی رکھ رکھائو نہیں کرتا، کبھی عدم فرصتی کا شکوہ نہیں کرتا۔ وہ سب ہی کو اپنا سمجھتا او ر اپنا بناتا ہے ۔لوگوں کیلئے نرم و خلیق بن کر وہ یاروں کا یا ر بن جاتا ہے ۔ دانستہ طور پر چاہتاہے کہ محلے اور شہر کے لوگ اس سے چمٹے رہیں،اسکے دست و بازو بنے رہیں۔
    داعی اپنی فطرت میں مسکرانے والی شخصیت ہوتا ہے ۔نہیں چاہتا کہ اس کے سخت اور ناگوار روئیے سے لوگ کبھی اس سے دور بھی کھنچیں۔بجائے دور کرنے کے، وہ اپنے کرادر، اخلاص اور تبسم ریزشخصیت سے لوگوںکو اپنی طرف راغب کئے رکھتاہے اوراسی باعث لوگ بھی اسے اپنا فرد قرار دینے لگتے ہیں!۔ کہہ اٹھتے ہیں کہ’’ یہ ہمار ا ہے ،یہ ہمار اہے‘‘۔’’ہم نے اس سے کبھی دھوکا نہیں کھایا ،کبھی اس کی تیوری پر بل نہیں دیکھا،کبھی بد عہدی نہیں پائی‘‘۔                        
     لوگ اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ان کی تکلیفوں کا مذاق نہیں اڑائے گا،فائدہ نہیں اٹھائے گا اور اگر کبھی مسئلے کا حل نہیں نکال سکا تو پرخلوص تسلی تو وہ کم از کم انہیں ؎دے ہی دے گا ۔ داعی کا کہناہوتا ہے کہ غیر کہاں ،سب میرے ہیں ،اور میں الگ کہاں، سب کا ہوں!۔ انہی کے ساتھ جیوں گا اور انہی کے ساتھ مروں گا۔ ان کے دکھ ، ان کے مسائل ،اور ان کی پریشانیاں،اگر میں نہ سمجھ سکوں گا تو پھراور کون سمجھے گا؟۔ جانتا ہے کہ پاکستان کی دنیا میں ہر چہار طرف اندھیر اہے ۔چوپٹ راج ہے ۔ دکھوں سے بھری مملکت ہے! اور دکھوںکے حل کا سامان کسی محکمے ،کسی وزیر،کسی جید شخصیت کے پاس نہیں بلکہ حل کرنے کے بہانے حکومتی ذمے داران اُن پر مزید دکھ سوار کردیتے ہیں۔ کہتا ہے کہ یہاںکی حکومتیں لینا چانتی ہیں دینا نہیں جانتیں!ایک افراتفری ہے ،ایک تنہائی ہے ، ایک بے بسی ہے جس سے یہاں کا ہر چھوٹا ،ہربڑا اور ہرمرد و عورت گزررہا ہے اسی لئے ہرایک کے دکھ کو وہ اپنے دکھ میں ڈھال لیتا ہے اوراقرار کرتا ہے کہ تمہاری خاطر میں وہاں تک بھی جائوں گا جہاں تک شاید تم بھی جا نہ سکو!۔ حال یہ ہوتاہے کہ :    
کہیں برق چمکے ،میں جل اٹھوں
 کوئی تارا ٹوٹے، میں روپڑوں
 یہ دل ِ ستم زدہ ہم نشیں
کسی کائنا ت سے کم نہیں! 
     ایسی ہی بے چین و فکرمند شخصیت ہوتی ہے وہ جس کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد بھی فرماتے ہیں کہ ’’وہ زمانے کی مخلوق نہیں کہ زمانہ اس سے اپنی چاکری کروائے ۔ وہ دنیا پر اس لئے نظر نہیں ڈالتا کہ ’’کیا کیا ہے جس سے دامن بھر لوں ؟‘‘ ۔ وہ یہ دیکھنے آتا ہے کہ ’’کیا کیا نہیں ہے جس کو(میں) پورا کروں؟‘‘ 
    وہ ایک عوامی شخص ہوتاہے جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ، کروفر کا مظاہرہ نہیں کرتا، لوگوں سے فاصلہ نہیں رکھتا، اور طبقاتی فرق کی جھلک نہیں دکھاتا۔ وہ عوام میں سے ہوتا اور عوام ہی کے لئے ہوتا ہے ،اس حدیث کا مصداق کہ ’’السید القوم خادمہم‘‘(قوم کابڑا ،قوم کا’ ’خدمت گذار‘‘ ہوتا ہے)۔وہ اسے الٹ کر نعوذ باللہ یوں نہیں کرتا کہ ’’السید القوم، مخدومہم‘‘(قوم کابڑا، قوم کا ’’حاکم‘ ‘ہوتا ہے)۔وہ محض ٹالنے کے لئے وعدے نہیں کرتا اوراگروعدے کرلے تو پھر مکرتا نہیں ، اپنے دروازے سب کے لئے کھلے رکھتاہے۔  
      لوگوں کو سمجھا تاہے کہ اس زمین پر،اس پاکستان پر، امن، چین،اور خوش حالی تب ہی آسکتی ہے جبکہ قرآن پاک کویہاںاقتدار میں لایا جائے،جب صادق اور امین لوگ پارلیمان میں بھیجے جائیں اورجب ان کا وزیر اعظم عام سا لباس پہنے کسی درخت کے نیچے بیٹھا لوگوں کی دادرسی کررہا ہو اوراس سادہ و غریب وزیر اعظم ہی سے لندن ا ور واشنگٹن میں بیٹھی دنیا خوف کھا رہی ہو۔
    اورہاں، تب ہی وہ دن آئیں گے جب اس کی یہ تمام پرخلوص باتیں سنی جائیں گی اور اسلام اور قرآن کی از خود طلب کیا کریں گے ۔تکبر کا رویہ اپنائے ہوئے، کرخت چہرہ اٹھائے ہوئے اوردوری کا انداز اختیار کئے ہوئے ، پذیرائی اور استقبال بھلاکب کسی کومل سکتی ہے ؟کون کسی’’داعی‘‘ کو تب اپنے قریب آنے دے گا؟
    اور ہاں،جب یہ تمام خوبیاںاورسارے اوصاف ،کسی ایک شخص کے اندر جمع ہوجائیں تواسے ’’داعی‘‘ کہہ کر پکارا جاتاہے ۔داعی یعنی دعوت دینے والا،فلاح کی طرف بلانے والا ، اپنے اچھے اور برے کا فرق بتانے والا ،کامیابی جس کے آگے پیچھے ہاتھ باندھے پھرتی ہے۔ 
    …’’داعی ایک پرکشش اور دلگداز ہستی ہوتاہے!‘‘  
مزید پڑھیں:- - - -نیک اعمال کی قبولیت کی شرط ، رزق حلال

شیئر: