Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شب برات کو فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں؟

مرنے کے بعد کسی کی روح کا واپس آنا نہ نصف شعبان کی رات میں ممکن ہے اورنہ کسی دوسرے دن میں
* * * ابو عدنان ۔ الخبر* * *

 

  15 شعبان کی رات جسے برصغیر میں شبِ برات کہا جاتا ہے، منانے کاایک مروّجہ طریقہ یہ بھی ہے کہ اس رات کے استقبال کیلئے گھروں کو صاف کیا جاتا ہے اور صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ سجاوٹ کی جاتی ہے۔ اس میں یہ عقیدہ کار فرما ہوتا ہے کہ فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں ۔اس سلسلہ میں پہلی بات تو یہ ہے کہ صفائی ستھرائی اپنے بدن کی ہو ،لباس و پوشاک کی ہو، یا گھر کی یہ سب چیزیں اسلام میں مرغوب و محبوب ہیں بلکہ اسلامی تعلیمات میں تو اسے جزو ِایمان قرار دیا گیا ہے اور مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ 15 شعبان کی شام کو گھروں کی صفائی ستھرائی اور سجاوٹ کی تہہ میں کارفرما نظریہ کہ اس رات فوت شدگان کی روحیں واپس آتی ہیں ،یہ عقیدہ سراسر باطل ہے۔قرآن و سنت میں اسکا کوئی ثبوت نہیں۔مرنے کے بعد کسی کی روح کا واپس آنا نہ شعبان کی اس رات میں ممکن ہے اور نہ کسی دوسرے دن میں۔ہمارے برِّ صغیر کے معاشرے میں مخصوص حلوہ کھانے اور کھلانے کے شوقین بعض مذہبی پیشواؤں نے تو اپنے مخصوص مفادات کیلئے روحوں کی آمد و رفت کا باقاعدہ ایک چارٹ مہیا کر رکھا ہے جسکے مطابق وہ عوام سے فوت شدگان کے نام پر کھاتے ،پیتے اور کپڑے کی شکل میں نذرانے وصول کرتے رہتے ہیں ۔
    اُن حضرات کے مطابق تیجے( تیسرے) ساتے ( ساتویں ) اور دسویں دن حتیٰ کہ میت کی روح40 دن تک مسلسل اپنے گھر آتی رہتی ہے اور پھر مومنین کی روحیں ہر ہفتہ میں ایک دن یعنی جمعرات کو اور ہر سال میں ایک رات یعنی شب ِ برأ ت کو آتی ہیں ۔یہ نظریہ و عقیدہ اہل ِ سنت کے متفقہ عقائد کی رو سے صحیح نہیں بلکہ باطل ہے کیونکہ فوت شدگان برزخی زندگی سے وابستہ ہوجاتے ہیں اور عالم برزخ کا عالم دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں کہ اس رات روحیں اپنے گھروں میں واپس آتی ہیں بلکہ سورۃلمومنون، آیت 99،100 میں تو اس کی واضح تردید موجود ہے۔ بد عملی میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے افعال سے باز نہ آئیں گے :
    ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آجائیگی تو کہنا شروع کردیگا کہ اے میرے رب !مجھے اُس دنیا میں واپس بھیج دے، اُمید ہے کہ اب میں نیک عمل کروں گا جسے چھوڑ آیا ہوں ،ہرگز نہیں یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب مرنے والوں کے پیچھے برزخ(پردہ )حائل ہے ،جو دوسری زندگی کیلئے اٹھائے جانے کے دن(قیامت)تک رہیگا‘‘
     بعض لوگ تیسویں پارے کی سورۃالقدر کے الفاظ ’’ تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْہَا‘‘سے دھوکہ کھاتے یا مغالطہ دیتے ہیں اور ان الفاظ کا ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ’’ اس رات( یعنی لیلۃ القدر) میں فرشتے اور روحیں اُترتی ہیں ‘‘ ،یہ باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سے روحوں کا اترنا ہی مُراد ہے حالانکہ اوّل تو وہاں مذکورہ رات سے مراد رمضان المبارک والی رات(لیلۃ القدر ) ہے نہ کہ شعبان والی ، دوسرے یہ کہ اِن اور ایسے ہی دیگرالفاظ میں روح سے مراد فوت شدگان کی روحیں نہیں بلکہ روح الامین حضرت جبرائیل ؑ مراد ہیں۔ پھر اسی ایک آیت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کو روح سے تعبیر نہیں کیا گیا بلکہ قرآنِ کریم کے دیگر متعدد مقامات پر بھی انہیں روح الامین اور روح القدس کے ناموں سے ذکر کیا گیا ہے ،جیسا کہ سورۃ البقرہ، آیت87اور253 میں روح القدس سے مراد جبریل ؑ ہیں یا وحی ٔ الٰہی کا علم ہے اور بعض کے نزدیک خود حضرت عیسیٰ  علیہ السلام کی اپنی روحِ پاک مراد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قدسی صفات بنایا تھا ۔پھر سورۃ المائدہ ، آیت110 میں بھی یہی بات مذکور ہے۔سورۃ النحل کی آیت2 میں روح سے مراد روح ِ نبوت یا علم ِ وحی ہے ،فوت شدگان کی روحیں نہیں، سورۃ النحل ہی کی آیت102میں روح القدس حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں، سورۃالشعراء، آیت193 ،سورۃالمعارج، آیت4 اور سورۃالنبا ء، آیت38 میں روح الامین اور روح سے مراد بھی حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں ۔الغرض اُوپر سے نیچے اُترنے اور نیچے سے اُوپر چڑھنے کے حوالہ سے قرآنِ کریم میں جہاں کہیں بھی ’’رُوح ‘‘  کا لفظ استعمال ہوا ہے ،وہاں روح الامین حضرت جبریل علیہ السلام ہی مراد ہیں نہ کہ فوت شدگان کی روحیں ۔
    اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ شعبان کی شام کو روحوں کی آمد اور انکے استقبال کی نیت سے جھاڑ پونچھ ،صفائی ستھرائی اور تزئین و سجاوٹ کرنا محض ایک خود ساختہ عقیدہ ہے جسے قرآن و سنت سے کوئی دلیل نصیب نہیں لیکن اگر کوئی بلکہ عموماً لوگ روزانہ ہی صفائی کرتے ہیں ،وہ حسب ِ معمول ہی اس شام بھی کرتے ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ایک مرغوب فعل ہے ۔
     نصف ِ شعبان کی رات کو لوگ خصوصی اہتمام کیساتھ اور اجتماعی شکل میں قبرستان کی زیارت کیلئے جاتے ہیں ۔اِس سلسلے میں عرض ہے کہ یوں تو کسی بھی دن یا کسی بھی رات مسنون طریقہ سے زیارت جائز ہے بلکہ نبی  نے تو اسکی ترغیب دلائی ہے کہ یہ فکر ِ موت و ذکر ِ آخرت میں معاون ہوتی ہے۔ زیارت کے وقت جو دعاء ہے وہ بھی صحیح احادیث میں ثابت ہے۔زیارتِ قبور کی 3 قسمیں ہیںجن میں سے شرکیہ اور بدعیہ کو چھوڑ کر صرف شرعیہ کے پیش نظر محض موقع بموقع صرف اپنے گاؤں کے قریبی قبرستان میں جایا جاسکتا ہے لیکن وہ بھی صرف انفرادی شکل میں ہو تومفیدِ مطلب ہے اور یہ زیادہ عبرت انگیز بھی ہوگی۔ جب بہت سارے لوگ ملکر قبرستان میں جائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہیں وہ عبرت حاصل نہیں ہوسکتی جو اکیلے شخص کیلئے ممکن ہے۔ نبی اکرم  کا عمل اس بات پر شاہد ہے کہ آپ  اس غرض سے جو زیارت ِ قبور کیلئے تشریف لے گئے تو اکیلے تھے ، ’’ با جماعت ‘‘ نہیں تھے ۔
    15 شعبان کی رات المعروف ’’ شبِ برأ ت ‘‘ کا روزہ رکھا جاتا ہے اور رات کو ذکر و عبادت کیلئے مخصوص کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ معروف و معمول بہٖ طریقہ یہی ہے۔نبی  بلا تخصیصِ یوم ،اس ماہ ِ شعبان کے بکـثرت روزے رکھا کرتے تھے۔ جو شخص صوم ِ داؤدی کا عادی ہو، وہ اس ماہ کے حسبِ معمول روزے رکھ سکتا ہے۔اس میں چاہے15 شعبان کا روزہ بھی ہو ،چاہے رمضان سے ایک یا 2 دن قبل کا روزہ بھی کیوں نہ آجائے اور وہ شخص جو ہر ماہ ایام ِ بیض یعنی چاند کی13 ،14 اور 15 تاریخ کا روزہ رکھتا آرہا ہے ،وہ بھی بلا اختلاف اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے کیونکہ وہ صرف 15 شعبان کا روزہ نہیں رکھے گا بلکہ ساتھ ہی 13اور14 کا بھی رکھے گا ۔
    باقی رہا اس رات کو منانے کا آخری طریقہ یعنی رات کو قیام کرنا ،ذکر و اذکار میں مشغول ہونا اور ایک مخصوص نماز ادا کرنا تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ رات بہر حال عام راتوں کی نسبت قدرے فضیلت والی ہے جس کا اندازہ متعلقہ روایات کے مجموعی مفاد سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان احادیث سے اس رات کی فضیلت کا تو اندازہ ہوجاتا ہے مگر ان میں ایسی کوئی بات نہیں ملتی جس سے اس طرف اشارہ ملتا ہو کہ اس رات میں تہوار منایا جائے ،شب ِ بیداری کا اہتمام کیا جائے اورمخصوص شکل وصورت اورکمیت وکیفیت کی نمازیںاداکی جائیںجیساکہ آج کل رواج ہے ۔
    ماہ ِ شعبان کی درمیانی یا پندرھویں رات کو ہی ایک مخصوص نماز پڑھی جاتی ہے ،جسے ’’صلاۃالخیر ‘‘ اور ’’ صلاۃ الألفیۃ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔اسکے بارے میں کثیر محدثین ومجتہدین علماء کی رائے یہ ہے کہ یہ کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں چنانچہ شارح صحیح مسلم امام نووی ؒ اپنی ایک دوسری کتاب’’ المجموع شرح المہذّب‘‘ میں فرماتے ہیں :
    ’’صلٰوۃ الرغائب کے نام سے معروف نماز جو ماہ ِ رجب کی پہلی جمعرات کی رات کو مغرب اور عشاء کے ما بین پڑھی جاتی ہے، جسکی 12رکعتیں ہوتی ہیں اور15 شعبان کی رات کو ایک نماز100 رکعتوں پر مشتمل پڑھی جاتی ہے ،یہ دونوں نمازیں بد ترین بدعت ہیں ،اور کتاب’’ قُوْت القلوب‘‘ اور ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں ان نمازوں کے مذکور ہونے سے دھوکہ نہ کھایا جائے۔ ان نمازوں کے بارے میں بیان کی جانے والی روایت سے بھی فریب میں نہیں آنا چاہئے کیونکہ یہ سب باطل ہیں اور اہلِ علم میں سے ایک صاحب پر ان نمازوں کی حقیقت و شرعی حیثیت مشتبہ ہوگئی ۔
     انہوں نے چند اوراق پر مشتمل ایک رسالہ بھی لکھ مارا جس میں اِن نمازوں کا استحباب ذکر کردیا ،اس رسالہ کے فریب میں بھی نہ آئیں۔ اُس میں انہوں نے مغالطہ سے کام لیا ہے اور امام ابو محمد عبد الرحمن بن اسماعیل المقدسی نے ان کی ردّ میں ایک نفیس کتاب لکھی ہے جس میں بڑے عمدہ پیرایہ میں ان کا بطلان ثابت کیا ہے۔ ‘‘
    اب مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس رات کو کسی خاص طریقے سے منانے کا ثبوت نہ قرآن میں ہے اور نہ ہی کسی حدیث میں لیکن آتش بازی وچراغاں جیسے لہو و لعب ،حلوے مانڈے کے شغل،دن کے روزے اور رات کی خود ساختہ اور مخصوص کیفیت و کمیت کی جعلی نمازوں سے قطع نظر،انفرادی طور پر کوئی ذکر ودعا اور مطلق نفلی عبادت کرلیتا ہے تو اسے مطعون اور بُرا بھلا نہ کہا جائے لیکن اگروہ ان رسوم کی پابندی کرتے ہوئے ایسا کرے تو پھر یہ بہر حال درست نہ ہوگاکیونکہ کسی رات کا فضیلت والا ہونا اُسکے احتفال وجشن اور مخصوص عبادتوں کو    لازم نہیں کرتا۔
مزید پڑھیں: - - -- - سیرت نبوی کا تجارتی پہلو

شیئر: