Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایران کے ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی

10مئی 2018ءجمعرات کو مملکت سے شائع ہونے والے اخبار ”البلاد“ کا اداریہ
ایران کیساتھ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی اور سخت پابندیوں کی بحالی ملاﺅں کے نظام کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے۔ ملاﺅں نے بین الاقوامی دباﺅ کی مجبوری میں ایٹمی معاہدے پر دستخط کئے تھے تاہم اب عالمی برادری کی سوچ یہ ہے کہ ایران کے ایٹمی معاہدے میں کچھ ایسی خامیاں رہ گئی ہیں جنہیں بنیاد بناکر ایرانی حکمراں بین الاقوامی تفتیش کاروں کو جل دے رہے ہیں۔ وہ اپنا عسکری ایٹمی پروگرام مکمل کرنے کیلئے مختلف حربے اپنا رہے ہیں۔ ایرانی نظام کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ وہ بیلسٹک میزائل کو جدید سے جدید تر بنائے اور ایٹمی طاقت بن جائے خواہ اس میں کچھ وقت ہی کیوں نہ لگے۔ ایران کے یہ دونوں پروگرام اُس کے عرب پڑوسیوں کیلئے براہ راست خطرہ ہیں۔ ایران کے ساتھ طے پانے والے ایٹمی معاہدے میں بین الاقوامی ضمانتیں ناکافی بھی ہیں اور نرم بھی۔ خلاف ورزی پر کسی عبرتناک سزا کا بھی تذکرہ نہیں۔ اس تناظر میں ایران کا ایٹمی پروگرام اسٹراٹیجی خطرہ ہے۔ بہتر ہوگا کہ اسے منجمد کردیا جائے یا اس کے حصے بخرے کردیئے جائیں تاکہ ایران کیلئے مستقبل میں دنیا کو فریب دینا ممکن نہ ہو اور وہ ایٹمی طاقت بننے کیلئے عالمی برادری کو چکمہ نہ دے سکے۔
سعودی عرب نے اس حوالے سے ہمیشہ اصولی موقف اختیار کیا۔ سعودی عرب یہ بات بہت اچھی طرح سے مانتا ہے کہ مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ پر پابندی عائد ہے۔ ایران نے خود پر عائد پابندیاں اٹھ جانے پر اقتصادی فوائد سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور خطے کے استحکام کو متزلزل کرنے والی سرگرمیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک طرف تو بیلسٹک میزائلوں کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا کھیل کھیلا اور دوسری جانب خطے میں دہشتگرد تنظیموں خصوصاً حزب اللہ اور حوثیوں کی پیٹھ تھپتھپائی۔ ان دونوں جماعتوںنے ایران سے ملنے والی استعداد اور صلاحیت کو سعودی عرب اور یمن میں شہریوں پر حملوں کیلئے استعمال کیا۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ عالمی برادری ایران کی باغیانہ پالیسی کے حوالے سے سخت موقف اختیار کرے۔
٭٭٭٭٭٭٭

شیئر: