Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی افواج مشرق وسطیٰ میں اب بھی ’دفاعی پوزیشن‘ میں ہیں: وائٹ ہاؤس

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج ’دفاعی‘ پوزیشن میں ہی ہیں، حالانکہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تہران سے انخلا کی حیران کن وارننگ کے بعد فوجی تیاریوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ٹرمپ کی سوشل میڈیا پر مختصر وارننگنے قیاس آرائیاں پیدا کیں کہ امریکہ شاید ایران پر حملہ کرنے کے لیے اسرائیل کا ساتھ دینے کی تیاری کر رہا ہے۔
یہ شبہات اس وقت مزید بڑھ گئے جب اعلان کیا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تنازع کے باعث ٹرمپ کینیڈا میں ہونے والے G7 اجلاس سے ایک دن پہلے روانہ ہو کر واپس وائٹ ہاؤس جا رہے ہیں۔
تاہم، وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون کے حکام نے دوبارہ واضح کیا کہ خطے میں موجود امریکی افواج اب بھی ’دفاعی‘ پوزیشن میں ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان، ایلکس فیفر نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کے جواب میں، جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ امریکہ ایران پر حملہ کر رہا ہے، کہا کہ ’یہ درست نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مریکی افواج اپنی دفاعی پوزیشن برقرار رکھے ہوئے ہیں، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘
پینٹاگون کے سربراہ پیٹ ہیگست نے بھی فاکس نیوز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’ہم خطے میں دفاعی پوزیشن میں ہیں، مضبوطی کے ساتھ، امن معاہدے کی جستجو میں، اور ہم یقیناً یہی امید کرتے ہیں کہ یہاں ایسا ہی ہو گا۔‘
دن کے آغاز میں ہیگستھ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے ہفتے کے آخر میں مشرق وسطیٰ میں ’اضافی صلاحیتوں کی تعیناتی‘ کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا کہ امریکی افواج کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور یہ تعیناتیاں خطے میں ہماری دفاعی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے کی گئی ہیں۔
ان کی یہ سوشل میڈیا پوسٹ اس وقت آئی جب طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایا نمٹز (USS Nimitz)  کو پیر کے روز جنوب مشرقی ایشیا سے روانہ ہوتے ہوئے دیکھا گیا، اور ایسی اطلاعات سامنے آئیں کہ درجنوں امریکی فوجی طیارے بحر اوقیانوس پار جا رہے ہیں۔
ایک امریکی دفاعی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تصدیق کی کہ ہیگستھ نے یو ایس ایس تمٹز  کو مشرق وسطیٰ بھیجنے کا حکم دیا ہے، اور کہا کہ اس کا مقصد ہماری دفاعی پوزیشن کو برقرار رکھنا اور امریکی اہلکاروں کی حفاظت کرنا ہے۔
دنیا کے سب سے بڑے جنگی جہازوں میں سے ایک کی نقل و حرکت اسرائیل اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے فضائی تنازع کے چوتھے دن ہوئی، جس کے خاتمے کا فی الحال کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔
حالانکہ بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں کمی کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔

شیئر: