اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ایران پر بڑھتے ہوئے حملے ہر کسی کے لیے خطرہ ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق منگل کو فرانس کے شہر سٹراسبرگ میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب میں شاہ عبداللہ دوم نے کہا کہ ’کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ جنگ کسی انتہا پر جا کر ختم ہو گی، ایران پر حملوں سے ہمارے خطے اور اس سے باہر خطرناک حد تک کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر ہماری عالمی برادری فیصلہ کن طور پر کام کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ہم انسان کی تعریف ازسر نو لکھ رہے ہوں گے۔ اگر اسرائیلی بُلڈوزر غیرقانونی طور پر فلسطینیوں کے گھروں، زیتون کے درختوں اور تنصیبات کو مسمار کرتے رہے، تو ایک دن وہ اخلاقی بنیادوں کو بھی چپٹا کر دیں گے۔‘
مزید پڑھیں
اردن کے فرمانروا نے نے ایک خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کی ضرورت اور فلسطینیوں کو آزادی اور ریاست کا حق دینے کی اہمیت کا اعادہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’عالمی سلامتی کو اس وقت تک یقینی نہیں بنایا جا سکتا جب تک عالمی برادری یوکرین میں تین سالہ جنگ اور آٹھ دہائیوں سے جاری دنیا کے سب سے طویل اور تباہ کن فلسطینی اسرائیلی تنازع کو ختم کرنے کے لیے کام نہیں کرتی۔‘
شاہ عبداللہ دوم نے غزہ میں بین الاقوامی قانون اور (عالمی برادری کی) مداخلت کی ناکامی کا حوالہ دیا اور کہا کہ 20 ماہ قبل جو ظلم سمجھا جاتا تھا وہ اب معمول بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’بین الاقوامی برادری کی ناکامی کے بعد بچوں کے خلاف قحط کا بطور ہتھیار استعمال، طبی عملے، صحافیوں اور بچوں کو نشانہ بنانا سب معمول بن گیا ہے۔‘
اردن کے فرمانروا نے مزید کہا کہ ’یہ تنازع ختم ہونا چاہیے اور اس کا حل بین الاقوامی قانون میں ہے۔ امن کے راستے پر پہلے بھی چل چکے ہیں اور اگر ہم اس کو منتخب کرنے کی ہمت اور ساتھ چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس پر دوبارہ چلا جا سکتا ہے۔‘

منگل کی صبح اسرائیل نے تہران میں رہنے والے لاکھوں لوگوں کو خبردار کیا کہ وہ شہر کو خالی کر دیں، کیونکہ لڑائی میں شدت کے بعد اسرائیل کے ایران کے خلاف فضائی حملے پانچویں روز بھی جاری ہیں۔
اسرائیل نے جمعے کو کہا تھا کہ اس نے ایران کی جوہری تنصیبات، بیلسٹک میزائل فیکٹریوں اور فوجی کمانڈروں کو نشانہ بنایا ہے۔ اس نے خبردار کیا تھا کہ تہران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے ایک طویل کارروائی ہو گی۔
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ ایران کے خلاف فوجی آپریشن ’اتنے دنوں تک جاری رہے گا‘ جب تک اسرائیل کی ’بقا کو درپیش ایرانی خطرے کو ختم نہ کیا جا سکے۔‘
اس کے بعد سے ایران نے تل ابیب پر جوابی حملے شروع کیے ہیں جن میں کچھ میزائلوں کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی مار گرایا گیا جبکہ بعض اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
