Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دنیا بھر میں ایٹمی انارکی کا ذمہ دا ر کون؟

سعید الفرحہ الغامدی۔ المدینہ
جب سے اہل جہاں کو ناقابل تقسیم ذرے کو بکھیرنے کی سائنسی صلاحیت کا علم ہوا،تب سے سائنسدانوں کو یہ حقیقت معلوم ہوئی ہے کہ وہ خاص انداز سے تباہ کن ہتھیار تیار کرسکتے ہیں او ریہ ہتھیار برسر پیکار فریقوں کے درمیان جنگوں اور عسکری محاذ آرائیوں کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ اس ہتھیار کے بل پر جغرافیائی سرحدوں یا مادی اور معنوی مفادات کا فیصلہ اپنے حق میں کرایا جاسکتا ہے۔ جب سے ہمارے جہاں میں بارود ، سیسے اور کیمیکل مواد دریافت ہوئے ہیں اور انہیں جنگی وسائل کے طور پر استعمال کرنے کا ہنر معلوم ہوا ہے، تب سے حضرت ِانسان دریافت شدہ مواد سے تباہ کن طاقت کو جدید سے جدید خطوط پر استوار کرنے کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔ کبھی یہ ہتھیار دفاع کیلئے استعمال کیا جاتا ہے تو کبھی مخالف پر حملے کےلئے ۔ 
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے آخر میںایٹم بم جاپان کے خلاف ناگا ساکی اور ہیرو شیما شہروں کو تباہ کرنے کیلئے استعمال کیا۔ تاریخ میں پہلی بار بنی نوع انسان نے جان اور مال کی اتنی بڑی تباہی دیکھی تھی۔ جاپان کے شہروں پر امریکہ کے ایٹمی حملوں نے پوری دنیا کو خوفزدہ کردیا تھا۔ ایک طرح سے یہ پوری دنیا کیلئے سراسیمہ کرنے والا پیغام تھا۔ بنی نوع انساں نے پہلی بار سوچا کہ اس قسم کے ہتھیاروں کا استعمال بند ہو۔ اس پر پابندی ہو۔ اسکا پھیلاﺅ روکا جائے۔ رفتہ رفتہ جب ایٹمی کلب میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی دائمی رکنیت والے وہ 5ممالک شامل ہوئے جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے ،میری مراد امریکہ، روس ، برطانیہ، فرانس اور چین سے ہے،تب سے دیگر ممالک بھی وقت کے ساتھ ایٹمی طاقت بننے کی دوڑ میں شامل ہوگئے۔ ہندوستان اور پاکستان ایٹمی طاقت بن گئے۔ ایٹمی طاقت بننا ایک طرح سے فریق مخالف کو دنداں شکن سبق سکھانے کی استعداد رکھنے کے ہم معنیٰ بن گیا۔
اسرائیل نے مغربی ممالک ، امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کی مدد سے چوری چھپے ایٹمی طاقت حاصل کرلی۔ اسرائیل اب تک یہ بات چھپائے ہوئے ہے اور ایٹمی توانائی کی عالمی تنظیم کو اپنی ایٹمی تنصیبات کی تفتیش سے روکے ہوئے ہے۔ اسرائیل کا اس طرح سے ایٹمی طاقت بننا ایٹمی پھیلاﺅ روکنے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحہ پر پابندی کے عالمی معاہدے این پی ٹی کو نظر انداز کرنے کا اہم ذریعہ بنا ہوا ہے۔
شمالی کوریا اور ایران درپردہ ایٹمی طاقت بننے کی شاہراہ پر گامزن ہیں۔ دونوں نے خفیہ طریقہ سے ایٹمی صلاحیتیں بہتر کرلی ہیں۔ یہ دونوں باغی ممالک کے خانے میں شمار کئے جارہے ہیں۔ بڑے ممالک کو اس بات کا علم ہے۔ جنوبی افریقہ اور لیبیا نے اس شاہراہ پر قدم رکھا تھاتاہم یہ دونوں اپنے مشن سے دستبردار ہوگئے اورا پنی ایٹمی تنصیبات عالمی تفتیش کاروں کو دکھانے پر راضی ہوگئے البتہ ایران اور شمالی کوریا اس حوالے سے عالمی ادارے کے سامنے جھکنے پر آمادہ نہیں۔ دلیل یہ دیتے ہیں کہ عالمی برادری اسرائیل کو ایٹمی طاقت بننے کی اجازت دیکر ہمارے ساتھ دہرے معیار اپنائے ہوئے ہے۔ ایران نے امریکہ سمیت مغرب ممالک کے ساتھ ایٹمی معاہدہ کیا۔ امریکہ کے سابق صدر نے اس سلسلے میں ایران سے تعاون کیا۔ صدر ٹرمپ انتخابی مہم کے وقت سے ہی ایران کے ایٹمی معاہدے پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں ۔
اسرائیلی وزیراعظم نتنیا ہو نے ایٹمی طاقت بننے سے متعلق ایران کے خفیہ عزائم طشت از بام کردیئے۔ ایران کی ذمہ داری ہے کہ وہ نتنیا ہو کے فراہم کردہ شواہد کو غلط ثابت کرے اور ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی کے انسپکٹرز کو ادنیٰ تحفظات کے بغیر اپنی تمام ایٹمی تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے اور اسی کے ساتھ یہ بھی مطالبہ جاری رکھے کہ اسرائیل کی بھی تمام ایٹمی تنصیبات کا معائنہ تحفظات کے بغیر ہو۔شمالی کوریا کے سربراہ نے ایٹمی پروگرام سے دستبرداری کا اعلان تو کردیا مگر ابھی تک پورا منظر نامہ واضح نہیں ہوا ۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو ،نیز اسکے اتحادی بھی دنیا میں ایٹمی انارکی کے ذمہ دار ہیں۔ اگر وہ شروع سے ہی اسرائیل کے ایٹمی طاقت بننے کے حوالے سے چشم پوشی نہ برتتے تو دیگر ممالک انکی سنتے مگر ان لوگوں نے ایک طرف تو اسرائیل کی جانب سے آنکھیں موند لیں اور دوسری جانب دیگر ممالک سے ایٹمی اسلحہ کے عدم پھیلاﺅ کے معاہدے کی پابندی پر زو ر دینا شروع کردیا۔ اگر ایران اور اسرائیل کے ایٹمی معاملات کو موثر شکل میں حل نہ کیا گیاتو عرب ممالک کو ایران اور اسرائیل کی ایٹمی دھمکیوں سے نمٹنے کیلئے ایٹمی طاقت بنناپڑیگا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: