برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے وابستہ سینکڑوں ملازمین نے ایک کُھلے خط کے ذریعے ادارے کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اس پر اسرائیلی حکومت کی طرف داری کا الزام عائد کیا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق خط میں بی بی سی کے موجودہ 100 سے زائد ملازمین نے ادارے کے بورڈ ممبر سر روبی گِب پر مبینہ طور پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام عائد کرتے ہوئے اُنہیں برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مزید پڑھیں
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹِم ڈیوی اور ادارے کے بورڈ کو بھیجے گئے ملازمین کے اس خط سے قبل ادارہ کئی تنازعات کا شکار رہا ہے۔
ان تنازعات میں گلسٹنبری کے میلے میں بی بی سی کی براہِ راست نشریات کے دوران برطانوی گلوکار باب وائلن کے اسرائیل مخالف نعروں اور غزہ پر دستاویزی فلم نہ دکھانے کے معاملات بھی شامل تھے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی بی سی کا ادارہ اسرائیلی حکومت اور فوج کے حق میں مہم چلا رہا ہے۔ یہ بی بی سی میں موجود ہر ایک کے لیے انتہائی شرم اور تشویش کی بات ہونی چاہیے۔‘
جن شخصیات نے اس خط پر دستخط کیے ہیں ان میں اداکارہ مریم مارگولیس، فلم ساز مائیک لی، اداکار چارلس ڈانس، مورخ ولیم ڈیلریمپل اور دیگر شامل ہیں۔
ان شخصیات کا دعویٰ ہے کہ ’غزہ کے حوالے سے بی بی سی کی کوریج اس کے ادارتی معیارات سے ’کم ہے‘ اور یہ زمینی حقائق کی عکاسی کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
اس خط میں بی بی سی کی جانب سے غزہ میں کام کرنے والے ڈاکٹروں پر بنوائی گئی دستاویزی فلم (غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک) نشر نہ کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جسے اب چینل 4 نشر کرے گا۔
بی بی سی کا موقف یہ ہے کہ فلم کو اس لیے نشر نہیں کیا گیا کیونکہ اس سے جانب داری کا تاثر پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔
خط کے مطابق ’یہ ایک سیاسی فیصلہ معلوم ہوتا ہے اور یہ صحافتی معیار کی عکاسی نہیں کرتا۔‘
واضح رہے کہ اس خط میں زیادہ تر تنقید کا ہدف سر روبی گِب کو بنایا گیا ہے، جو سابق وزیراعظم تھریسا مے کے ترجمان اور مشیر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ سر روبی گِب نے 2020 میں ہفتہ وار اخبار ’دی جیوش کرونیکل‘ خریدنے والے کنسورشیم کی مدد کی تھی اور وہ خود اس ادارے میں اگست 2024 تک بطور ڈائریکٹر خدمات انجام دیتے رہے۔
اس خط میں ان کے بی بی سی بورڈ میں کردار خصوصاً ادارتی معیارات کی کمیٹی میں شمولیت کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیا گیا ہے۔
بی بی سی کے ملازمین کے خط میں ’دی جیوش کرونیکل‘ پر مبینہ طور پر فلسطین مخالف اور اکثر نسل پرستانہ مواد شائع کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
خط میں سر روبی گِب پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام عائد کیا گیا اور بی بی سی میں دہرے معیار کی نشان دہی کی گئی ہے۔
اس خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے بہت سے افراد کی کوششیں بی بی سی کے اعلٰی سطح پر کیے گئے غیر شفاف فیصلوں کے باعث ناکام ہوئیں، جن کی نہ وضاحت دی گئی اور نہ کوئی بات چیت ہوئی۔ ہماری ناکامیاں براہِ راست ناظرین کو متاثر کرتی ہیں۔‘
’میڈیا کے ادارے کے طور پر بی بی سی نے غزہ کی جنگ میں برطانوی حکومت کے کردار، اسلحے کی فروخت اور اس کے قانونی پہلوؤں پر کوئی نمایاں تجزیاتی رپورٹنگ نہیں کی۔ یہ اہم خبریں بی بی سی کے حریف اداروں نے بریک کیں۔‘
