تسنیم امجد ۔ریا ض
صحرائے عرب میں اردو نیوز ایک ایسا پھول ہے جس کی خو شبو نے اردو دان طبقے کو اپنا گر ویدہ بنا لیا ۔اسے تر تیب دیتے ہوئے نہایت کمال سے ہر طبقہ فکر کو مدِ نظر رکھا گیا جس کے لئے اس کی انتظامیہ اور کار کنان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہو ں نے دن رات ایک کر کے صحرا میں اردو کی تخم ریزی کی ۔انہیں معلوم تھا کہ اس زبان کا دامن تنگ نہیں بلکہ بہت کشادہ ہے ۔جتنا وقت ہم ایک غیر ملکی زبان کو سیکھنے میں صرف کر دیتے ہیں اتنے وقت میں ہم ا علیٰ علوم کی تحصیل کر سکتے ہیں ۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیا ں ہے کہ اپنی زبان و جہ صد افتخار ہو تی ہے۔ جو قوم اپنی زبان نہیں رکھتی ،وہ تہذیب و تمدن اور تا ریخ و ثقا فت کے اعتبار سے غیرو ں پر بھرو سہ کر تی ہے اور سب کچھ ہو نے اور پانے کے با و جود مفلس ، نادار اور گو نگی ہوا کرتی ہے ۔یہ سوچ بے بنیاد اور غلط ہے کہ اردو کا دامن محدود ہے اور یہ دور حا ضر کے تر قی پسندا نہ تقاضو ں کا سا تھ نہیں دے سکتی ۔انگریزی کے دو چار غلط سلط جملے بو لنے وا لے کو ہم عزت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں اسی لئے ہم میں بہت سی ایسی شخصیات بھی ہیں جو اردو کا ا خبار کسی کے سا منے پڑھنے سے گھبر ا تی ہیں مبادا کو ئی ہمیں کم تعلیم یا فتہ یا دقیا نو سی سمجھ لے ۔افسوس کہ نئی نسل اردو کے رسم ا لخط سے بھی وا قف نہیں ۔خود ادیبو ں کے بچے بھی اسی مر ض میں مبتلا ہیں ۔انگر یزی اسکو لو ں میں پڑ ھتے ہوئے انگر یزی ملکو ں میں چلے جا تے ہیں ۔ہمیں آزاد ہو ئے 70 برس ہو چکے لیکن ہم ابھی تک انگریزی کے کھو نٹے سے بند ھے ہوئے ہیں ۔ہمارا ذ ہن غلام ہے ۔یہاںیہ کہنا درست ہو گا کہ:
زندہ وطن میں رو ح ثقا فت اسی سے ہے
آ زادی وطن کی علامت اسی سے ہے
اب کا نہیں یہ ساتھ ،یہ صد یو ں کا سا تھ ہے
تشکیل ار ض پاک میں اردو کا سا تھ ہے
وطن سے دور اردونیوز، اردو دا نو ں کے لئے کسی نعمت غیر متر قبہ سے کم نہیں ۔یہ انتہائی خلو صِ نیت سے زبان کی پروش کر رہا ہے ۔یہ حقیقت ہے کہ اس نے بہت سے لکھاری پیدا کئے ۔حو صلہ افزائی نے اشتیاق دو چند کیا ۔ابتدا میں صرف خطوط میں اپنی رائے بھیجنے والے آگے بڑ ھتے چلے گئے یہا ں تک کہ کتا بو ں کے مصنف بن گئے۔اس نے انعامی اور ذہنی آ ز ما ئش کے مقا بلو ںکے ذریعے انعا مات کی بارش کی ۔اردو نیوزنے اردو کی حفاظت کی ذمہ داری کیا خوب نبھا ئی کیو نکہ یہ اتحاد کا نشان ،یکجہتی کی جان ،دیس کی آ ن ،ا ثا ثہ تہذیب ،فخرِ پاکستان اور سب کی جان ہے ۔یہ کہنا بھی منا سب ہو گا کہ وقت کے امتحان میں کامیابی اسی زبان کی حفا ظت میں ہے ۔قو مو ں کی پہچان ان کی زبان سے ہی ہے ۔اردو تہذیب و شائستگی اور پیار محبت کی زبان ہے ۔انٹر نیٹ اور فیس بک کے اس دور میں بھی بے ا ختیار اس جریدے کودیکھتے ہی پڑ ھنے کو دل چا ہتا ہے،ایسا کیو ں ہے ؟ یقیناََ یہ ہمارا رشتہ ہی ہے جو ا ٹوٹ ہے ۔یہ ہم سب کے دل کی آ واز ہے ۔ اہالیان اردو کے لئے یہ مکمل اخبار ہے۔اس میں ہر فکر کی آ واز سنائی دیتی ہے ۔یہ پاک و ہند کے تا ر کین وطن کے ما بین محبت اوردو ستی کی علامت ہے ۔
7مئی 1994ءکو جب اردو نیوز کا پہلا شمارہ ما ر کیٹ میں آیا تو چند گھنٹوں میں فرو خت ہو گیا ۔برصغیر کے تارکین کو یہ اخبار دیکھ کر اس قدرخوشی ہوئی کہ اسے یہاں لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔پاک و ہند کے با سی اسی زبان کے حوالے سے ایک دوسرے سے را بطے میں رہتے ہیں ۔
تا ریخ کا جا ئزہ لیںتو معلوم ہو گا کہ ابتدا میںاخبار 17ویں صدی میں منظر عام پر لائے گئے ۔تب یہ صر ف کا رو باری شعبہ کے لئے ہی کار آ مد تھے ۔ان میں زیادہ تر بز نس سے متعلق معلومات ہو تی تھیں ۔19وی صدی میں یو رپ ،شمالی اور جنوبی امریکہ میں با قا عدہ ان کی اشا عت شروع ہو ئی ۔ما ضی میں ان کی ا ہمیت بہت زیادہ تھی ۔گھر میں مو جود بز رگ صبح صبح چا ئے کے کپ کے ساتھ اخبار بینی کو ازحد ضروری سمجھتے تھے ۔بچو ں اور بڑو ں کو وہ روزانہ ایک پرا جیکٹ کی ما نند اس پر کو ئی کام دے دیا کرتے تھے ۔پھر شام کی چائے پر اس پر تبصرہ ہو تاتھا ،بہت یاد آ تا ہے وہ ”نان اسمارٹ اخباری دور“ ،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
وہ عطر دان سا لہجہ مرے بز ر گو ں کا
ر چی بسی ہو ئی اردو زبان کی خو شبو
تب انگریزی یا اردو ، دو نو ں ہی کار آ مد تھیں۔اسے ایک اچھی عادت سمجھا جا تا تھا کیو نکہ یہ ایک قسم کا ذریعہ تعلیم ہی ہے۔وہی ابجد زبان بنتے ہیں جو اپنے اندر افہام و تفہیم کی صلا حیتیں رکھتے ہوں۔زبان وہ ہے جس کا دامن کشادہ اور ذ خیرہ الفا ظ وسیع ہو اور جس میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیقی کام ممکن ہو ۔بلا شبہ اردو نیوز نے قارئین کونہ صرف ذخیرہ الفاظ سے آشنا کیا بلکہ اس ذخیرے میں نئے الفاظ کا اضافہ بھی کیا۔
دنیا بھر کے علما ئے نفسیات اور ما ہرینِ تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اپنی زبان کو کم تر سمجھنے سے تخلیقی صلا حتیں شل ہو کر رہ جا تی ہیں۔ ذا تی سوچ بچار کا مادہ بھی ختم ہو جا تا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وطنِ عزیز میں طلباءکی کثیر تعداد سال ہا سال نا کام رہتی ہے ۔کاش ہم اس حقیقت کو جان لیں کہ اپنی زبان کو اعلیٰ مقام پر نہ لانے کے قصور وارہم ہی ہیں کیو نکہ تر قی ایک تد ریجی عمل ہے ۔اس لئے گزارش ہے کہ اپنی زبان پر فخر کیا جا ئے۔ ہمارا احساسِ کمتری کا غلاف اسی طرح اترے گا ۔یہ سچ ہے کہ انگریزی نا گزیر ہے لیکن انگریزی کی قیمت پر ہمیں قوم کی تباہی منظور نہیں۔ بقول شاعر:
ایسا ہی اک ہجوم میرے آس پاس ہے
جن کے دلو ں میں زہر ،زباں میں مٹھا س ہے
صحرائے عرب میں اردو نیوز کے 24 سال مکمل ہونے پر ہماری دلی دعا ئیں اور نیک تمنا ئیں اس ہشت ورقی جریدے کے ساتھ ہیں ۔راقم کو فخر ہے کہ اس کا ساتھ روزِ اول سے ہی ہے اور اب اردو نیوز کی فیملی میں ہمارا شمار یقیناباعث افتخار ہے ۔قلق صرف یہ ہے کہ قریباًربع صدی گزرنے کے باوجوداپنی اس فیملی سے تعارف غا ئبانہ ہی ہے ۔اس ”خاندان“ کے کسی فرد سے ملاقات نہیں ہوسکی ۔دل تو یہ چاہ رہا ہے کہ ہر ایک کو باری باری خراجِ تحسین پیش کیاجائے مگر ڈریہ ہے کہ اگر کسی کا نام رہ گیا تو دلآ زاری ہو گی ۔