Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ورلڈ کپ کے اہم میچ کے مہمان پاکستانی احمد رضا کے تاثرات

 
سینٹ پیٹرز برگ: روس میں جاری فیفا ورلڈ کپ میں  برازیل اور کوسٹا ریکا کے میچ سے قبل ٹاس میں پاکستانی نوجوان احمد رضا بھی موجود تھے ۔ انہوں نے میگا ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرکے ملک کیلئے نیا اعزاز حاصل کیا ۔ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے احمد رضا کے والد شبیر احمد فٹبال تیار کرتے ہیں اور ان کا خاندان 3نسلوں سے یہ کام کرتا آ رہاہے۔ احمد رضا سیالکوٹ کے قائد اعظم پبلک اسکول میں زیر تعلیم ہیں اور فٹ بال کے کھلاڑی ہیں۔ معروف مشروب ساز کمپنی کی وساطت سے فیفا ورلڈ کپ کے میچ میں مہمان منتخب ہوئے تو ان کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ لاہور میں فیفا کے نمائندے نے بتایا کہ وہ روس میں فیفا ورلڈ کپ کیلئے مہمان منتخب ہوئے ہیں۔احمد رضا کا کہنا تھا کہ میرے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا میں ورلڈ کپ دیکھنے روس جا سکوں گا اس لئے مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ بتایا گیا کہ میچ میں ٹاس کے وقت ریفریز اور دونوں ٹیموں کے ساتھ گراونڈ میںموجود ہوں گا تو یقین آگیا ۔ سیالکوٹ واپسی پر میرے پاس ورلڈ کپ کیلئے فیفا کا دعوت نامہ تھا۔ اسکول کے دوستوں کو بھی یقین نہیں آیا ،چھٹی کی درخواست دی تو سب کو یقین آگیا۔ سینٹ پیٹرزبرگ کے اسٹیڈیم میں برازیل اور کوسٹا ریکا کے میچ کے لئے گراونڈ میں داخل ہونے کے احساسات کے حوالے سے 15 سالہ احمد رضا نے کہا کہ خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ فیفا ورلڈکپ کا میچ دیکھنے جاوں گا اور وہ بھی برازیل کی ٹیم کا جس میں میرا پسندیدہ کھلاڑی نیمار جونیئر کھیلتا ہے۔ اس وقت میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب میں نیمار کے قریب کھڑا ہو گیا۔ ایک سوال پراحمد رضا نے کہا کہ فیفا انتظامیہ کا اصول ہے کہ کسی کھلاڑی سے بات نہیں کرنی ہاں اگر کھلاڑی خود بات کر لے توجواب دیا جا سکتاہے۔ ہمت کر کے پسندیدہ کھلاڑی نیمار سے ہاتھ ملا لیا لیکن کوئی بات نہیں کر سکا۔ ا سٹیڈیم میں ایک پاکستانی نے کہا کہ سیالکوٹ میں تو فٹ بال کھیلا ہی نہیں جاتا۔اس کے جواب میں، میںنے کہا کہ کھیلی بھی بہت جاتی ہے اور بنتی بھی بہت ہے ۔احمد رضا کے والد شبیر احمد کا کہنا تھا کہ بیٹے کی وجہ سے عزت ملی۔انھوں نے بتایا کہ احمد اپنے دوست کے ساتھ فٹ بال کھیلنے جاتا تھا۔ میں نے کہا کہ ہاں بیٹا کھیلو میں فٹ بال سیتا ہوں اور تم فٹبال کھیلتے ہو۔ انھوں نے بتایا کہ وہ پہلے فٹ بال بنانے والی فیکٹری میں کام کرتے تھے لیکن اب وہ سپلائر سے کام لے کر گھر پر سلائی کرتے ہیں۔

شیئر: