Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

طالبان پر پاکستان کی گرفت کمزور ہورہی ہے، ایران کو فائدہ پہنچ رہا ہے

 ہدیٰ الحسینی ۔ الشرق الاوسط
پاکستان کو احساس ہے کہ اسے خلیج عمان پر قائم چاہ بہار بندرگاہ میں توسیعی منصوبہ نافذ کرکے الگ تھلگ کیا جارہا ہے۔ پاکستانی افواج کے ڈی جی رینجرز جنرل بلال اکبر نے گزشتہ ہفتے تہران کا دورہ کرکے اپنے ایرانی ہم منصب جنرل عبدالکریم موسوی سے ملاقات کی۔دونوں نے اس موقع پر اس اعتماد کا اظہار کیاکہ”ہمیں سرحدوں پر مشترکہ خطرات درپیش ہیںلہذا پاکستان اور ایران کی افواج کو اپنے ایجنڈے پر ٹھوس تعاون کا موضوع رکھنا ہوگا“۔ 
گزشتہ اتوار کو جلال آباد کے بازار میں سکھوں اور ہندوستانیوں پر دہشتگرد حملہ ہوا ۔ یہ حملہ افغانستان کیلئے امریکی ایلچی ایلس ویلز کے دورہ کابل کے موقع پر ہوا۔ امریکی ایلچی نے طالبان کے لیڈروں پر الزام لگایا کہ وہ قیام امن کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ امریکی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کو طالبان پر مزید دباﺅ ڈالنا ہوگا۔ 
پاکستان کو غالباً یہ بات دکھ دے رہی ہے کہ طالبان پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جارہی ہے اور ایران کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی ہے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان کے حساب پر ایران طالبان کیلئے اپنے تربیتی پروگرام چھپانے میں بھی وہ کامیاب رہا۔ ان دنوں ہندوستان ، ایران اور افغانستان ایک دوسرے سے بھاری تعاون کررہے ہیں۔
چاہ بہار بندرگاہ کا توسیعی منصوبہ اس کا عملی ثبوت ہے۔ یہ ایرانی بندرگاہ ہے ۔ ایران نے 1983ءمیں ایران، عراق جنگ کے دوران خلیج عرب سے بالا ہی بالا تجارتی راہ داری کے طور پر قائم کی تھی۔ حالیہ ایام میں ہندوستان نے 500ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور قرضے فراہم کرکے اس بندرگاہ میں توسیعی منصوبہ نافذ کیا۔ یہ بندرگاہ 2علیحدہ بندرگاہوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے درمیان بھی 10بندرگاہیں واقع ہیں۔ چاہ بہار نہ صرف یہ کہ بندرگاہ ہے بلکہ وہ ہندوستان کے تجارتی خوابوں کی تکمیل کا اٹوٹ حصہ بھی ہے۔ بندرگاہ کی بدولت ہندوستان کو افغانستان سے جوڑا جائیگا۔ 1.6ارب ڈالر کی لاگت سے چاہ بہار زاہدان ریلوے لائن تعمیر ہوگی۔ افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک نئے علاقائی تجارتی راستے استوار ہونگے ۔ یہ ایک طرح سے چین کی اقتصادی راہداری کے متوازی منصوبہ ہے۔ یہ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی راہداری کے چیلنج کا جواب ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ ہندوستان کے وسیع البنیاد خوابوں کی امین ہے۔ اس کے ذریعے ہندوستان، وسطی ایشیا، روس اور بالآخر یورپ تک رسائی حاصل کریگا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایران کے ایٹمی معاہدے سے امریکی صدر کی علیحدگی کے باعث ہندوستان کی اسکیموں کا دھڑن تختہ ہوسکتا ہے۔ 
چاہ بہار بندرگاہ کو مالیاتی اورسفارتی تعاون ہندوستان سے حاصل ہے۔ ہندوستان ہی اس سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھائےگا۔ ایران کو بھی اس سے بہت سارے فائدے حاصل ہونگے۔ہندوستانی حکمراں چین کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی منصوبوں اور راہداریوں سے الگ تھلگ کردیئے جانے پر تشویش کا شکار تھے۔ پاکستانی بندرگاہ گوادر سے پاکستان اور چین کے درمیان اقتصادی راہداری سے وسطی ایشیاتک کا راستہ ہموار ہوگا۔ہندوستان کا اس میں کوئی حصہ نہیں۔ سارا کاروبار ہندوستانی بندرگاہوں سے بالاہی بالا انجام پائے گا۔ ہندوستانی حکمرانوں نے اس کا متبادل چاہ بہار اور ہندوستان کی بندرگاہ کنڈلا کے درمیان جہاز رانی کا سلسلہ شروع کرکے تیار کیا ہے۔ 
چاہ بہار بندرگاہ کی بدولت افغانستان میں ہندوستان کا اثر و نفوذ گہرا ہوگا۔ ہندوستان نے افغانستان کے بازاروں تک چاہ بہار کے راستے رسائی حاصل کرلی ہے۔ اس نے گندم فراہم کرنا شروع کردیا ہے۔ ہندوستان افغانستان کے 4بڑے بازاروں ہرات، کابل ، مزار شریف اور قندھار تک رسائی کیلئے کوشاں ہے۔ اس نے افغان منڈی میں نقب لگا کر پاکستان کو امسال مقامی منڈی کے 50فیصد حصے سے محروم کردیا۔ 
کسی بھی علاقائی مسئلے کے سر ابھارنے پر ہندوستان ، پاکستان اور افغانستان کو مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ تینوں ملکوں کے درمیان جغرافیائی اور سیاسی مسائل مذاکرات پر اثر انداز ہونگے ۔ افغانستان میں پاکستان کی طویل المیعاد اسٹراٹیجک حکمت عملی افغانستان کو ہندوستان سے دور رکھ سکتی ہے۔ پاکستانی حکام کو خدشات لاحق ہورہے ہیں کہ کہیں افغانستان میں مختلف نیم عسکری گروپ جنگ کے نئے محاذ نہ کھلوا دیں۔ چینی راہداری سے توازنِ تجارت پاکستان کے بجائے چین کے حق میں جارہا ہے۔
افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات بالعموم بہتر ہورہے ہیں۔ دونوں میں کوئی بڑا تنازع بھی نہیں تاہم جغرافیائی حقائق بڑی رکاوٹ ہیں۔ افغانستان اور ہندوستان کو جوڑنے والا کوئی راستہ نہیں۔ افغانستان پاکستانی بندرگاہوں پر انحصار کرتا ہے البتہ چاہ بہار بندر گاہ سے پاکستان پر افغانستان کا انحصار کم ہوگا۔ اس سے تینوں ملکوں کے درمیان کھیل کے ضابطے بدل جائیں گے۔ 
پاکستان کے سر پر انتخابات کھڑے ہوئے ہیں۔ ہند پر ایران سے پٹرول کی درآمد بند کرنے کا دباﺅ ہے۔ افغانستان کی بابت امریکہ اور نیٹو ممالک کے یہاں بند کمروں کے اجلاس ہورہے ہیں۔ موضوع افغانستان سے حتمی انخلاءکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عظیم مشرق وسطیٰ کا حدود اربعہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اس کے نتائج عرب مالک کو بھی جھیلنا پڑیں گے۔ سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: