Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دو چار ہاتھ جب لب بام

محمد مبشر انوار 
کھیل کوئی بھی ہو،اس کا فطری حسن ،اسکے طے شدہ اصولوں کے مطابق کھیلنے میں ہی ہے نہ کہ دوران کھیل کسی قسم کی دخل اندازی یا طے شدہ اصولوں سے ہٹ کر اس کے فطری حسن کو گہناکر جیتا جائے۔ پاکستان میں اس وقت انتخابی مہم جاری و ساری ہے مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ رو ایتی گہما گہمی ،عوامی جوش و خروش شدید گرمی نے ماند کر رکھا ہے۔علاوہ ازیں،عوام کی نبض کا صحیح اندازہ بھی ممکن نہیں رہا کہ ایک دن ایک سیاستدان کا جلسہ ہوشربا تو اگلے دن انتہائی مایوس کن،یوں لگتا ہے جیسے عوام بھی ان سیاستدانوں کے ساتھ کھیل رہی ہو۔اس وقت 3 بڑی جماعتوں کے قائدین ،شدید گرمی میں اپنی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔عوام کے در پر حاضرہو رہے ہیں اور عوام کو رجھانے کی اپنی بھرپور کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ جیسا پہلے عرض کیا کہ کھیل کوئی بھی ہو ،اپنے طے شدہ اصولوں کے مطابق کھیلا جائے تو فطری حسن ،اعتماد برقرار رکھ پاتا ہے اور اگر کسی بھی کھلاڑی کی ناجائز پشت پناہی کی جائے یا مساوی حق سے محروم کیا جائے تو مقابلہ کسی بھی طور برابر کا نہیں رہتا ۔ پیپلز پارٹی کوجو ابتداء میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ پارٹی کے طور پر پہچانی جاتی تھی۔ گزشتہ 2 انتخابات میں جان بوجھ کر کونے سے لگانے کی شعوری کوششیں ہوئیں۔2007کی انتخابی مہم میں پیپلز پارٹی کی قائد بے نظیر بھٹو اس فانی دنیا سے ایسے رخصت ہو ئیںکہ تمام تر جانی دھمکیوں کے باوجود عوام سے اپنے رشتہ کو نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بے نظیر بھٹو انتہائی منجھی ہوئی سیاستدان تھی اور اپنے باپ کی بنائی ہوئی پارٹی کے بنیادی منشور اور والد کی وصیت کیمطابق عوام سے اپنا ناطہ کسی طور بھی توڑنے کیلئے تیار نہ تھی،خواہ جان جاتی ہے تو جائے،اپنی اس جدوجہد اور عزم کو انہوں نے اپنی جان دے کر سچ ثابت کیا۔ 2013کے انتخابات میں پیپلز پارٹی پر ایک مرتبہ پھریہی افتاد آن پڑی کہ انتہا پسند قوتوں نے لبرل اور پروگریسو سیاسی پارٹیوں کو اپنے نشانے پر رکھ لیا۔ایسی سیاسی جماعتوں کیلئے اپنی انتخابی مہم چلانا کاردارد ہو گیا،عوام تک ان کی رسائی دگرگوں ہو گئی،جبکہ دوسرے امیدواران کیلئے میدان صاف ہو گیا۔ آج بھی ،ایک طرف دھمکیوں کے حوالے سے کم وبیش یہی صورتحال پیپلز پارٹی کو در پیش ہے تو دوسری جانب گزشتہ دور حکومت میں کی جانیوالی بد عنوانیاںاس کا پیچھا کر رہی ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری(ابھی تک)اپنے ہم عصروں میں قدرے بہتر سیاسی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں گو کہ ان کو آج بھی کھل کر سیاست کی اجازت نہیں اور انہیں جتنا کہا جاتا ہے،وہ صرف اسی حد تک رہتے ہیں۔ بغور دیکھا جائے تو اس وقت بلاول بھٹوزرداری کتابی سیاست کر رہے ہیں کہ ایک طرف وہ اپنے جلسے جلوسوں میں منشور کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف عوام سے اپنے نانا اور والدہ کی سیاسی خدمات کا تذکرہ کرتے ہیں،کسی حد تک وہ سندھ میں حکومتی کارکردگی کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن یہ کارکردگی لاڑکانہ میں ’’صرف‘‘کئے گئے90ارب کی دھول میںچھپی نظر آتی ہے۔   
دوسری طرف پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن اس وقت ابتلاء کے دور سے گزر رہی ہے،اس کی صف اول اور مستقبل کی قیادت جیل میں ہے جبکہ موجودہ صدر شہباز شریف پارٹی کو اپنی ترجیحات اور لائحہ عمل سے چلا رہے ہیں،جس میں سیاست کی سفاکی کا عنصر نمایاں ہے کہ ساری زندگی چھوٹے بھائی کا کردار ادا کرتے کرتے اب شہباز شریف اونچی اڑان کے متمنی دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ13جولائی کو اپنے بڑے بھائی اور قائد کے استقبال کے لئے ایئر پورٹ تک نہ پہنچ سکے،جس کا انکشاف خواجہ آصف نے کر دیا کہ مسلم لیگ ن کا ائیر پورٹ جانے کا ارادہ ہی نہیں تھا لہذا کاررواں ائیر پورٹ سے دور ہی رہا۔ قطع نظر اس حقیقت کہ،اس وقت صورتحال  مختلف ہے اور مسلم لیگ ن اپنے روایتی انداز میں بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ عوام مسلم لیگ ن کو مظلوم سمجھتے ہوئے اس کی باتوں پر کان دھر رہی ہے۔یہ کسی بھی سیاستدان کا حق ہے کہ وہ عوام کو اپنے ساتھ ملاکر حکومت بنائے مگر چونکہ پاکستان میں حقیقی شرح خواندگی انتہائی کم ہے اور جو خواندہ عوام ہے اس کی اکثریت بھی شخصیت پرستی کی بیماری میں مبتلا ہے جس کو ہمارے سیاستدان پوری طرح استعمال کرتے ہیں۔ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا،گمراہ کن پراپیگنڈہ کرنا،تعصب کو ہوا دینا،لسانی بنیادوں پر جذبات کو مشتعل کرنا ہی ہماری سیاست کا چلن ٹھہرا ہے اور سیاسی جماعتیں،سیاست دان اور ان کے مقلد اس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ ن بھی انہی بنیادوں پر اپنی انتخابی مہم  چلا رہی ہے۔
پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی بالکل بھی سمجھ نہیں آ رہی ۔پل میں تولہ پل میں ماشہ والی مثال اس جماعت پر بعینہ صادق آتی ہے،کبھی تو بے مثال جلسے اور کبھی خالی کرسیاں!! اس جماعت کا ووٹرہر لمحہ حیران کرتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور قیادت اس سے کیا چاہتی ہے۔ الیکٹ ایبلز کی سیاست کرتے کرتے عمران خان کے جلسوں کی جو حالت ہو رہی ہے وہ انکی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہونی چاہئے مگر لگتا ہے کہ روایتی خوشامدی امیدوار انہیں اپنی گرفت میں لے چکے ہیں اور اب وقت بھی گزر گیا کہ اس کی تلافی کی جا سکے۔ انتخابی سیاست میں پنجاب ہمیشہ سے ہی فیصلہ کن رہا ہے اور جس طرف بھی پنجاب کا جھکاؤ ہوا،مرکز میں حکومت اسی سیاسی جماعت کی ہوتی ہے،اس وقت جب تمام سیاسی جماعتیں پنجاب کی مہم میں اپنے آخری مراحل سے گزر رہی ہیں۔تحریک انصاف پے در پے خالی کرسیوں کے جلسے منعقد کر رہی ہے۔ یہ چیز عمران کے سیاسی شعور کی عکاسی کر رہی ہے کہ عمران کس حد تک سیاسی طور پر با شعور ہیں،دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین بہر طور اس سیاسی شعور میں عمران سے بہت آگے ہیں۔جہلم کا جلسہ بالخصوص عمران اور تحریک انصاف کیلئے مدتوں ہزیمت کا باعث رہے گا کہ مقامی قیادت نے کس طرح اپنے لیڈر کوبے توقیر کروایا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایسی صورت میں امیدواران عمران کو جلسے میں شرکت سے منع کر دیتے تا کہ بھرم قائم رہ جاتا مگر فقط اپنے سیاسی فائدے کی خاطر پوری جماعت کے سیاسی مستقبل کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔ 
اس پس منظر میں مخالف سیاسی جماعتیں،جو قبل از انتخاب ہی دھاندلی کا واویلا کر رہی ہیں،لاڈلے کو نوازے جانے اور کھلا میدان دینے کے الزامات لگا رہی ہیں۔انتخابی نتائج کو کس بنیاد پر تسلیم کریں گی؟انتخابات میں کامیابی پر ان کا یہ جواز مبنی بر حقیقت ہو گا کہ جلسوں میں تو کرسیاں خالی تھی،بیلٹ بکس میں ووٹ کہاں سے آئے؟کیا یہ جواز نئی حکومت کیلئے مسائل کھڑے کرنے کیلئے کافی نہیں ہو گا؟کیا اس حقیقت کو نتائج کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا؟کیا یہ جواز ایک نئے ’’مذاق جمہوریت‘‘ کو جنم نہیں دے گا؟میرے ذاتی خیال میں اس کا ایک مظاہرہ بلاول کے لاہور جلسے میں ہو بھی چکا ہے کہ میری ذاتی رائے کے مطابق لاہور جہاں ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف 819ووٹ حاصل کر پائی تھی،یکدم اتنا بڑا جلوس کیسے کر پائی ہے؟بہر کیف یہ تجزیہ اس حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے کہ اس کارکردگی کی بنیاد پر تحریک انصاف 80-100نشستیں حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہے؟جس تبدیلی کا خواب تحریک انصاف دکھا رہی ہے کیا وہ عوام کو اس کی تعبیر دے پائیگی یا عوام کو فی الوقت’’اسٹیٹس کو‘‘ میں ہی رہنا ہوگا ۔اس کا فیصلہ  26جولائی کو آ جائے گالیکن یہ یقینی ہے کہ اس میں جیت سیاست یا سیاستدانوں کی ہرگز نہیں ہوگی اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یقینی طور پرعوام کی حالت دو چار ہاتھ لب بام والی ہو گی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: