Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پنجاب حکومت: پی ٹی آئی اور ن لیگ میں رسہ کشی

مرکز اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی واضح برتری کیوجہ سے حکومت بنانا یقینی ہوچکا، عمران خان کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ن لیگ کو موقع دینا چاہئے
تنویر انجم
انتخابات 2018ءکے نتائج کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ملک بھر میں حیران کن طور پر غیر معمولی برتری ثابت کرتے ہوئے مرکز میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت سازی اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے کمیٹیاں قائم کردیں۔ الیکشن سے پہلے تک ملک بھر میں سب سے بڑا موضوع انتخابات ہی تھے، جس میں تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما عوام سے وعدے اور اس کے بعد دعوے کرنے میں مصروف تھے تاہم انتخابات کے نتائج آنے کے بعد مرکزی حکومت کا معاملہ تو واضح ہو چکا ہے جس کے بعد اب سب سے بڑی جنگ پنجاب پر حکومت کی ہے اور اس حوالے سے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں نہ صرف بیانات بلکہ امیدواروں کی جوڑ تور کا مقابلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
ملک بھر میں اپنی اکثریت ثابت کرنے والی موجودہ پارٹی پی ٹی آئی اور سابق حکمران پی ایم ایل (این) دونوں ہی صوبے میں اپنی حکومت بنانے کے دعوے کررہی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معاملہ نہ صرف دلچسپ صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے بلکہ اس وقت سب سے بڑی بحث بھی اسی موضوع پر ہو رہی ہے۔ پنجاب میں کسی بھی جماعت کو حکومت بنانے کے لیے صوبائی اسمبلی کے 297 ارکان میں سے 149 کی حمایت درکار ہوگی اور ایسے میں آزاد ارکان سب سے اہم کردار ادا کریں گے ۔
انتخابات کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج آنے کے بعد پنجاب میں مسلم لیگ ن کو بہرحال تحریک انصاف پر برتری حاصل ہے اور اس کے ساتھ ہی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ مزید حمایت حاصل کرنے کے لیے کامیاب ہونے والے امیدواروں سے رابطے کررہے ہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی سے وسیع القلبی کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک پرانی بات یاد دلائی کہ جب گزشتہ انتخابات میں مرکزی حکومت مسلم لیگ ن کے پاس تھی تب وزیر اعظم نواز شریف نے پی ٹی آئی کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے خیبر پختونخوا میں اسے حکومت بنانے کا موقع دیا تھا، لہٰذا اس ’کشادہ دلی‘ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پی ٹی آئی حالیہ انتخابات میں ن لیگ کے مینڈیٹ کا احترام کرے۔
اس کے فوراً ہی بعد پی آئی کے رہنما نعیم الحق نے اعلان کردیا کہ ہم آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر مرکز کے ساتھ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی ہی کی حکومت بنائیں گے۔ اسی دوران جہانگیر ترین اور چوہدری سرور کو آزاد امیدواروں پر ڈورے ڈالنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جس کے بعد ملتان، خانیوال، ڈی جی خان اور لیہ سمیت دیگر شہروں میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں سے پی ٹی آئی رہنماﺅں کی ملاقاتیں ہوئیں اور اس کے بعد پارٹی کا دعویٰ ہے کہ بیشتر آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرکے وہ مرکز کے ساتھ پنجاب میں بھی اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
تازہ ترین پیش رفت کے مطابق پنجاب میں آزاد حیثیت سے انتخابات جیتنے والے 4 ارکان اسمبلی بنی گالہ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرنے کے بعد اپنی حمایت کا نہ صرف یقین دلا چکے ہیں بلکہ پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔ جس کے بعد پی ٹی آئی کی پنجاب میں نشستیں 123 سے بڑھ کر 127 ہو گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف میں شامل ہونے والوں میں کبیر والہ سے حسین جہانیاں گردیزی، ڈیرہ غازی خان سے حنیف خان پتافی، لیہ سے سید رفاقت حسین اور بشارت حسین رندھاوا شامل ہیں۔
ان اہم ملاقاتوں کے دوران ہی عمران خان خود بھی سابق اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید سے ایک اہم ملاقات کر چکے ہیں جس میں صوبے میں حکومت سازی کے حوالے سے اہم مشاورت کی گئی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق اپوزیشن لیڈر نے عمران خان کو آزاد امیدواروں سے روابط کے حوالے سے مثبت پیش رفت سے آگاہ کیا ہے۔ عمران خان کی خواہش ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کسی ایسے شخص کو ہونا چاہیے جو نہ صرف پارٹی کا پرانا نظریاتی کارکن ہو بلکہ اس پر کرپشن سمیت کوئی اور الزام بھی نہ ہو۔
اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے پاس 129 نشستیں ہیں جبکہ تحریک انصاف بھی 123 سے بڑھ کر 127 سیٹوں کی حامل بن چکی ہے۔ یہ کوئی ایسا واضح فرق نہیں ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کوئی بڑی رکاوٹ درپیش ہو۔ ساتھ ہی تحریک انصاف نے مزید 9 آزاد امیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ ان کی شمولیت کا اعلان بھی جلد ہی کردیا جائے گا۔ ایسے میں کامیاب ہونے والے آزاد امیدواروں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ ن کو ایک بڑے چیلنج اور مقابلے کا سامنا ہے جس کے لیے اس نے نہ صرف آزاد امیدواروں بلکہ اپنے روایتی حریفوں پیپلز پارٹی (جس کے پاس پنجاب میں 6 نشستیں ہیں) اور مسلم لیگ ق (جو صوبے میں 7 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے) کے ساتھ بھی رابطے شروع کردیے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی اور عوامی راج پارٹی کے پاس بھی ایک ایک نشست موجود ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (قائد اعظم) کے اندرونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پارٹی پنجاب اور مرکز میں حکومت سازی کے لیے پی ٹی آئی سے اتحاد کر سکتی ہے اور اس حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لیے متوقع طور چوہدری پرویز الٰہی کا نام بھی زیر غور ہے جبکہ تحریک انصاف کے اندر اس اہم عہدے کے لیے یاسمین راشد کے نام سے متعلق بھی چہ مگوئیاں جاری ہیں جنہوں نے بنی گالہ میں عمران خان سے ملاقات کی ہے۔
قبل ازیں تحریک انصاف مسلم لیگ ن سے وابستہ گورنرز کو ہٹانے کا عندیہ بھی دے چکی ہے جس کے فوراً بعد سندھ کے گورنر محمد زبیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے گڑھ صوبہ پنجاب کے لیے عمران خان کے دیرینہ ساتھی اعجاز چوہدری کے نام پر غور کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے انہیں اسلام آباد طلب کیا گیا ہے۔ 
مبصرین کا کہنا ہے کہ چونکہ مرکز اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی واضح برتری کی وجہ سے حکومت بنانا یقینی ہو چکا ہے، لہٰذا پنجاب میں اس حوالے سے مسلم لیگ کو موقع دینا چاہیے کیونکہ گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ نے کم از کم پنجاب بھر میں خاطر خواہ ترقیاتی کام کیے ہیں اور انتخابات میں اسے معمولی سہی، مگر پی ٹی آئی پر برتری حاصل ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسے موقع پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب میں مسلم لیگ ن کو موقع دینا چاہیے کہ وہ اس بار پرانی شکایات کا ازالہ کریں اور ملکی ترقی میں مرکزی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے ایک اچھی روایت قائم کریں اور ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان میں نمایاں برتری حاصل کرنے والی جماعتوں پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کو حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے کہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں