Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سیاست میں آنے پر بھائی نے کئی سال بات نہیں کی‘، چترال کی ایم پی اے خدیجہ بی بی

تحصیل دروش سے خدیجہ بی بی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا۔ (فوٹو: اے این پی فیس بک)
سنہ 2008 کے الیکشن کے دوران جب خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں سمیت لوئر چترال کے دروش جیسے قدامت پسند علاقے میں مساجد سے اعلانات کے ذریعے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جا رہا تھا تو شاید کسی نے یہ تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ ایک دن اسی علاقے کی ایک خاتون سیاستدان کے صوبائی اسمبلی کی رکن منتخب ہونے پر شاندار استقبال کیا جائے گا۔
تین اگست 2025 میں یہ غیرمتوقع صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب خدیجہ بی بی عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی ٹکٹ پر مخصوص نشست پر منتخب ہو کر رکن صوبائی اسمبلی بنیں۔
ڈیڑھ سال کے التوا کے بعد صوبے میں مخصوص نشستوں کے معاملے پر جون میں سپریم کورٹ کی جانب سے جب قومی اور صوبائی اسمبلی کی 77 مخصوص نشستوں کی بحالی فیصلہ آیا تو اس کے بعد 20 جولائی کو گورنر ہاؤس پشاور میں جے یو آئی اور مسلم لیگ ن کی سات، سات خواتین نے حلف اٹھایا۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی چار خواتین نے حلف لیا اور اے این پی اور پی ٹی آئی پی کی جانب سے بالترتیب دو اور ایک خاتون رکن نے حلف اٹھایا۔
حلف اٹھانے کے بعد جب خدیجہ بی بی اپنے آبائی علاقے دروش واپس پہنچیں تو عوام کی جانب سے شاندار استقبال دیکھ کر ان کے ذہن میں ان تمام مناظر کی یادیں بھی لوٹ آئیں جب علاقے کے لوگ سیاست میں خواتین کا آنا معیوب سمجھتے تھے۔
تحصیل دروش جہاں سے خدیجہ بی بی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا تھا، ایک پہاڑی علاقہ ہے جو لوئر چترال کے شروع میں واقع ہے۔ یہ لواری ٹنل سے 40 منٹ کی مسافت پر ہے۔ یہاں گھروں سے باہر اور بازاروں میں خواتین بہت کم نظر آتی ہیں۔ اس کے گاؤں پہاڑوں میں میں بکھرے ہوئے ہیں اور وہاں تک پہنچنے میں کئی  گھنٹے لگ جاتے ہیں۔
خدیجہ بی بی نے اردو نیوز کو بتایا کہ انہیں پلیٹ میں رکھ کر چیزیں نہیں ملیں بلکہ اس مقام تک پہنچنے میں انہوں نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا۔ ’میں نے جب سیاست میں قدم رکھا تو میرے اپنے گھر والے بھی مخالفت کرتے تھے۔ میرے بھائی نے مجھ سے کئی سال تک بات نہیں کی۔ میں نے بھی دیگر خواتین کی طرح مسائل کا سامنا کیا ہے۔ مجھ پر دباؤ بھی آیا، ذہنی اذیت سے بھی دوچار ہوئی۔ یہاں تک کہ علاقے کی مسجدوں سے اعلانات ہوتے تھے کیونکہ ان کو خواتین کا باہر نکلنا پسند نہیں تھا۔ یہ سب آسان نہیں تھا۔ مگر میں نے حوصلے سے مشکلات کا سامنا کیا۔‘
خدیجہ بی بی ان چند خواتین میں سے ہیں جنہوں نے نہ صرف جنرل الیکشن 2024 میں حصہ لیا بلکہ اس سے قبل وہ تحصیل میئر کے انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں۔ وہ ان انتخابات میں کامیاب تو نہیں ہوئیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ عوام کے لیے ان کے سیاست کا سفر جاری رہے گا۔

تحصیل دروش لواری ٹنل سے 40 منٹ کی مسافت پر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی 22 فیصد ہے جو دو طریقوں سے ہوتی ہے۔ ایک جنرل اور دوسری مخصوص نشستوں کے ذریعے۔ تاہم جنرل نشستوں پر خواتین کی تعداد انتہائی کم ہے اور اس کی بنیادی وجوہات میں مالی وسائل کی کمی، معاشرتی رویے اور سیاسی جماعتوں کی ترجیحات شامل ہیں جو خواتین کی سیاسی شمولیت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔
خیبر پختونخوا کی موجودہ صوبائی اسمبلی کی 99 جنرل نشستیں ہیں جن میں سے صرف ایک خاتون ثریا بی بی اپر چترال سے ووٹ لے کر اسمبلی میں پہنچی ہیں۔ اس سے قبل 2018 کے عام انتخابات میں میں ثمر ہارون بلور وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے جنرل نشست پر کامیابی حاصل کی تھی۔
مخصوص نشستیں سیاسی جماعتوں کو ان کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے دی جاتی ہیں اور ان پر نامزدگی پارٹی فہرست کے ذریعے ہوتی ہے۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے 22 مخصوص نشستیں اور اقلیتی اراکین کے لیے تین نشستیں شامل ہیں۔
’حلف لینے کے وقت میرا علاقہ میرے سامنے تھا‘
خدیجہ بی بی نے اپنا سیاسی سفر صفر سے شروع کیا کیونکہ ان کے پاس نہ مالی اور نہ جماعتی طاقت تھی۔ لیکن وہ اس وقت اپنی پارٹی کی صوبائی نائب صدر ہیں۔
وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور اس بات کا برملا اظہار بھی کرتی ہیں کہ انہوں نے بااثر سیاستدانوں اور شاہی خاندان کے اراکین کے خلاف الیکشن لڑے ہیں۔
خدیجہ بی بی کے مطابق ’اگرچہ چترال جیسے علاقوں میں اکثر سیاسی جماعتیں اور مرد نہیں چاہتے کہ خواتین سیاست میں آگے آئیں لیکن میں نے نچلی سطح سے سیاست کی اور عوام تک پہنچنے کی کوشش کی اور ان کے مسائل کے حل کے لیے آواز اٹھائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے ماں باپ کی سپورٹ شروع سے میرے ساتھ تھی۔ میرے بھائی نے اب تسلیم کر لیا  ہے اور سمجھتے ہیں کہ سیاست برا کام نہیں ہے بلکہ اب میرے ساتھ مل کر سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ میرے ساتھ موجود ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کے لیے 22 مخصوص نشستیں ہیں۔ (فوٹو: گورنر ہاؤس)

خدیجہ بی بی نے علاقے کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور سیاسی مہم کے لیے اپنی تحصیل کے دور دراز کے گاؤں کے پیدل سفر کیے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے دروش بازار میں بجلی کی لوڈشیڈنگ اور صحت کے مسئلے پر احتجاج کیا۔
جب میں حلف لے رہی تھی تو اس وقت میرے سامنے میرا علاقہ تھا۔ یہ دعا تھی کہ اللہ مجھے کامیاب کرے کہ میں اپنے علاقے کے لیے کچھ کر سکوں۔
دروش کے رہائشی عباس حسین کا کہنا ہے کہ علاقے کے لوگ خدیجہ بی بی کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ان کے بنیادی مسائل حل کریں گی۔
انہوں نے کہا کہ چترال میں خواتین کے لیے مواقع محدود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کو منوا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’2013 سے آج تک چترال میں بنیادی مسائل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ اب لوگوں کو خدیجہ بی بی سے امید ہے کہ اپوزیشن میں رہ کر وہ اپنے علاقے کے مسائل اجاگر کریں گی۔‘
’مخصوص نشستوں کا نظام خواتین کی مؤثر نمائندگی میں رکاوٹ‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی عہدیدار صائمہ منیر کا کہنا ہے کہ خواتین کی اسمبلیوں میں موجودہ نمائندگی 20 فیصد ہے، تاہم جب اسمبلی مکمل ہو جاتی ہے تو یہ شرح 17 فیصد رہ جاتی ہے۔
ان کے مطابق ’ہم نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی 33 فیصد ہونی چاہیے۔ 2002 سے اسی تعداد میں خواتین اسمبلیوں میں آتی رہی ہیں اور گزشتہ 23 برسوں کے دوران خواتین سے متعلق اچھی قانون سازیاں ہوئی ہیں۔

دروش کے رہائشی عباس حسین کے مطابق لوگ خدیجہ بی بی کی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ (فوٹو: فیس بک)

صائمہ منیر نے مخصوص نشستوں کے نظام کو خواتین کی مؤثر نمائندگی میں رکاوٹ قرار دیا۔
’الیکشن کے لیے مخصوص سیٹ پر جو طریقہ کار ہے اصل مسئلہ وہ ہے۔ کیونکہ پارٹی کے لیڈر کے پاس مخصوص سیٹ کا سارا اختیار ہوتا ہے اور اسی لیے پھر خواتین زیادہ کھل کر بول نہیں سکتیں اور پارٹی کے ضوابط کی پیروی کی جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جو خواتین ووٹ کے ذریعے منتخب ہو کر آتی ہیں تو اس کے پاس چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنی آواز بلند کر سکیں کیونکہ ان کے پیچھے ووٹ کی طاقت ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ عورت فاؤنڈیشن کی جانب سے انتخابی نظام میں اصلاحات کے لیے ایک تحریک بھی چلائی گئی جس میں دو تجاویز پیش گئیں۔
’ہر تیسرا حلقہ خواتین کو دیا جائے تاکہ وہ آپس میں مقابلہ کریں اور ان کا اپنا حلقہ ہو اور وہ انتخابات کے ذریعے اسمبلی میں آئیں۔ لیکن اگر آپ کے لیے یہ ممکن نہیں تو تین حلقوں کو ملا کر خواتین کو موقع دیا جائے تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لیں اور وہ ووٹ حاصل کریں۔ اصل میں طاقت ووٹ کی ہوتی ہے اور ووٹ کے بغیر نمائندگی کمزور ہوتی ہے۔‘
خدیجہ بی بی بھی ووٹ کے طاقت کو سمجھتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ مخصوص نشست پر منتخب ضرور ہوئی ہیں لیکن ان کا اصل ہدف عوام کی حمایت سے جنرل الیکشن میں سیٹ جیتنا ہے۔ ’مجھے یقین ہے کہ عوام میرے کام کو دیکھ کر مجھے قومی اسمبلی پہنچائیں گے۔‘

شیئر: