Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کہاں چلے جا رہے ہیں ہم

***وسعت اللہ خان ***
  کیا فائدہ  واویلا کرنے کا کہ کس ارب پتی نے کتنا  ٹیکس دیا اور دراصل  کتنا دینا چاہئے تھا۔کاغذ پر سب ایماندار ہیں۔تمام غریب ارب پتیوں کے گوشوارے ٹیکس ماہرین ہی  بناتے ہیں۔انہیں ٹکنیکلی چیلنج کرنا بہت مشکل کام ہے۔لیکن ان سب  غریب ترین امرا  کو اندر سے تو معلوم  ہوگا  ہی کہ اصل میں انہوں نے کتنی ایمانداری سے ٹیکس دیا یا کاغذوں میں چھپا دیا۔عوام بھلے بول نہ پائیں پر یہ تو جانتے ہی ہیں کہ کس کا رہن سہن کتنی آمدنی سے لگا کھاتا ہے بھلے وہ  ٹیکس کے کاغذ پر کتنا ہی مفلوک و مسکین نظر آئیں۔
ہمارے ہاں وہ تو آسانی سے پکڑا جاتا ہے جس کے زرائع آمدنی بظاہر محدود ہوں مگر لائف ا سٹائل لا محدود قسم کا ہو۔لیکن اسے پکڑنا مشکل ہے جس کے زرائع آمدنی لامحدود ہوں مگر ٹیکس کے کاغذ پر میں وہ لوئر مڈل کلاسیا نظر آئے۔گزشتہ حکومت نے برسرِ اقتدار آتے ہی ایک ٹیکس ریفارمز کمیشن بنایا تھا۔ اس  کی رپورٹ کا  خلاصہ یہ ہے کہ موجودہ ٹیکس نظام کا جھکاؤ واضح طور پر اشرافیہ کی جانب ہے۔زیادہ تر بلا واسطہ ٹیکس عام آدمی کی کمر پر لاد دیئے گئے ہیں۔کمیشن نے سفارش کی  کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جگہ ایک خود مختار نیشنل ٹیکس ایجنسی قائم کی جائے جسے تمام مستسنیات ختم کرکے بلا امتیازِ ادارہ و فرد ہر اس پاکستانی شہری کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا اختیار ہو جو ٹیکس ایجنسی کی جمع کردہ معلومات کی بنا پر ٹیکس دینے کا اہل سمجھا جائے۔یہ ایجنسی تمام وفاقی و صوبائی ٹیکس جمع کرنے کی مجاز ہو تاکہ کنفیوژن ، ڈپلی کیشن اور چور دروازہ بند ہو سکے۔حکومت چاہتی تو ان سفارشات کو بجٹ کا حصہ بنا سکتی تھی مگر ٹیکس ریفارم کمیشن کی سفارشات آج بھی زیرِ غور ہیں۔
دبئی کے لینڈ ڈپارٹمنٹ کے2014-16ء  کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستانی اور برطانوی سرمایہ کاروں کے بعد دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری پاکستانیوں نے کی۔یعنی تقریباً 6 ہزار پاکستانیوں نے اس عرصے میں18ارب درہم  (512 ارب روپے) کی املاک خریدی ہیں۔اللہ جانے یا ایف بی آر جانے کہ ان6 ہزار پاکستانیوں  میں سے کتنوں کے نام 10 لاکھ 74 ہزار ٹیکس دہندگان کی قومی فہرست میں شامل ہیں۔ ( ملاحظہ فرمائیے ،20 کروڑ کی آبادی میں ڈائریکٹ ٹیکس دہندگان کی تعداد10 لاکھ 74 ہزار )۔
پہلے تو کچھ لوگ جانتے تھے اب تو اندر باہر سب ہی طرح کے لوگوں کو معلوم ہو گیا ہے کہ پاکستانی اشرافیہ ملک و قوم سے اور پھر اپنی زات سے کس قدر مخلص ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ( یو این ڈی پی )  کے ایک پاکستان پروگرام ڈائریکٹر مارک آندرے فرانشے نے یہاں 4 برس گزار کے2016ء  میں واپس جاتے جاتے پاکستان میں بنیادی تبدیلیوں کے امکانات پر یہ رائے دی کہ ’’ ملک میں اس وقت ہی بدلاؤ آ سکتا ہے جب بااثر ادارے  ، امرا اور سیاستداں اپنے قلیل المیعاد مفادات کے بجائے اجتماعی قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ایسی اشرافیہ تا دیر نہیں چل سکتی جو دولت کمانے کے لئے تو سستی ان پڑھ لیبر کی ناواقفیت کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرے مگر اپنی پارٹیاں لندن میں ، شاپنگ دبئی میں اور جائداد یورپ و امریکہ میں رکھے۔اشرافیہ کو بالاخر فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہیں یہ ملک چاہئے یا نہیں ’’۔
مارک نے بتایا کہ ’’ مجھے ان لوگوں کے گھروں میں بھی جانے کا اتفاق ہوا جو صدیوں سے جاگیردار ہیںمگر جنہوں نے آج تک پانی کے بھی پیسے نہیں دئیے اور ان کا دار و مدار لوگوں کی جبری مشقت پر رہا ہے۔اور پھر یہی لوگ اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں آ کر کہتے ہیں کہ آئیے آپ ہمارے علاقے میں تعلیم ، صحت و صفائی اور پانی کی فراہمی کے شعبوں میں پیسہ لگائیں ’’۔
مارک نے کہا کہ ’’ آج 2016ء  میں بھی پاکستان کی38 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے ہے۔اس ملک کے کئی اضلاع پسماندہ ترین افریقی ممالک جیسے ہیں۔ہزار میں سے 66 بچے یا مائیں دورانِ زچگی مر جاتے ہیں اور یہ تناسب دنیا کے سب سے پسماندہ ممالک کے برابر ہے۔مگر اشرافیہ نے اس کا حل یہ نکالا ہے کہ خود کو بڑے بڑے دروازوں اور دیواروں کے پیچھے محصور کر لیا تاکہ نظر ہی نہ پڑے۔ ایک جانب لوگوں کی بے ترتیب آبادیاں ہیں اور دوسری طرف بڑے بڑے شاپنگ مالز جہاں عام آدمی قدم رکھتے ہوئے گھبراتا ہے۔کیا یہ ایسا سماج ہے کہ کوئی بھی اپنے بچوں کو مسلسل رکھنا پسند کرے ؟ تعلیم اور روزگار کے مواقع میں ایک خوفناک خلیج نظر آتی ہے۔ چنانچہ جس نوجوان کو موقع مل رہا ہے ملک چھوڑ رہا ہے۔فوری بغاوت کے آثار نہیں البتہ ایسی صورتحال بتدریج بن رہی ہے جس میں 40 فیصد آبادی کو مسلسل غربت پر راضی رکھنا مشکل تر ہوتا جائے گا’’۔
مارک نے کہا کہ ’’ میڈیا چاہتا تو جمہوریت اور احتسابی عمل کو استحکام دینے اور عوامی شعور کی سطح بلند کرنے کے لئے اپنی آزادی اور طاقت استعمال کر سکتا تھا۔مگر بدقسمتی سے حکومت کا اسٹیبلشمنٹ پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے اور میڈیا بھی طاقتور مفادات کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔اس سے نہ صرف جمہوریت بلکہ ملک کے بنیادی اداروں کی جڑیں بھی آگے چل کر کمزور ہوتی چلی جائیں گی’’۔
اگر میں خود اپنی آنکھوں سے نہ پڑھ لیتا کہ یہ باتیں یو این ڈی پی پاکستان کا سبکدوش ہونے والا چیف مارک آندرے فرانشے کر رہا ہے تو میرا پہلا دھیان اس جانب ہوتا کہ کوئی پرانے انداز کا کھڑتل کیمونسٹ اپنی فرسٹریشن نکال رہا ہے۔لیکن زرا سوچئے ! کیا واقعی پاکستان کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ مارک جیسا کوئی محتاط بین الاقوامی سول سرونٹ بھی ناقدانہ جائزہ لینا شروع کرے تو یوں لگیگویا کارل مارکس انیسویں صدی  کی بے حس یورپی اشرافیہ کے بارے میں کچھ کہہ رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر: