Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’اک واری فیر‘‘

***شہزاد اعظم***
وہ نوجوانی کا عالم تھا۔ قرنیہ اور شبکۂ چشم بلور کی طرح شفاف تھے اس لئے ارد گرد کی ہر شے آب حیات سے دھلی دکھائی دیتی تھی ۔اُس عمر میں احساسات کو جگانا نہیں پڑتا تھا بلکہ ان کو دبانا پڑتا تھا،کسی ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے عزم  و ہمت مجتمع کرنے کی نہیں بلکہ انہیں لگام دینے کی ضرورت ہوتی تھی۔ اُس عمر میں جذبے دل میں بیدار نہیں ہوتے تھے بلکہ طوفان مچاتے تھے۔اس عمر میں خیالات آتے نہیں تھے بلکہ کسمساتے تھے، دن چڑھا نہیں کرتا تھا بلکہ صبح طلوع ہوا کرتی تھی، کام کرنا نہیں پڑتا تھا بلکہ ہو جاتا تھا۔منزل کی جانب قدم بڑھانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ وہ خود ہی قدم بوسی کے لئے موجود ہوتی تھی۔اس دور میں ایک روز ہم صحن میںپڑی چارپائی میں دھنسے نیند کے مزے لے رہے تھے کہ اچانک کان میں ایک گرجدار آوازسنائی دی ۔ ہم ہڑ بڑا کر بیدار ہوئے ، ایسا لگا جیسے عالم خواب کے آسمان سے حقیقت کی دنیا میں آگرے ہوں۔ اوسان یکسو ہوئے تو پتا چلا کہ والد صاحب نے ٹرانسسٹر آن کیا تھا جس پر ذوالفقار علی بھٹو نامی شخصیت کی تقریر نشر کی جا رہی تھی جس میں وہ پاکستانی قوم کے ایک جم غفیر کو باور کرا رہے تھے کہ میں امیر اور غریب کا فرق ’’ملیامیٹ‘‘ کر دوں گا۔ کسانوں کو، مزدوروں کو ان کا حق دوں گا، انہیں بھوک مٹانے کے لئے روٹی، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور سر چھپانے کے لئے مکان دوں گا۔یہ ملک عوام کا ہے، اس پر حکومت بھی عوام کی ہوگی، آپ عوام ہیں، میںعوام میں سے ہوں۔ اس پاکستان میں راج  عوام کا ہوگا، کاج عوام کا ہوگا، تاج عوام کا ہوگا۔
وہ تقریر کب ختم ہوئی، ہمیں یاد نہیں، کیونکہ ہم تو ’’سبز باغ‘‘ دیکھنے میں مستغرق ہو چکے تھے،جہاں انتہائی سہانا موسم تھا، اُمید کی ہوائیں چل رہی تھیں،چہار سو ارمانوں کے پھول کھلے تھے،دل انگڑائی لے رہا تھا اور ذہن کو حُسین مستقبل دکھائی دے رہا تھا۔خرد یہ باور کرارہی تھی کہ یہ ہیں جناب بھٹو جنہیں اردو میں کہتے ہیں’’حقیقی رہنما‘‘ اور انگریزی میں کہاجاتا ہے ’’ٹرو لیڈر‘‘کہ جنہوں نے ہم نوجوانوں کو روٹی ، کپڑا اور مکان دینے کا پرجوش وعدہ کیا ہے، یقین دہانی کرائی ہے ۔ اسے کہتے ہیں سچا راہبر ۔ اب ہمارا ایک کام رہ جائے گا اور وہ یہ کہ اپنے ’’رہنما، لیڈر، راہبر‘‘ کے عطا کئے ہوئے مکان کو گھر بنانا ہوگا۔اس مقصد کے لئے ہمیں ایک من پسند صنف نازک سے رشتۂ ازدواج قائم کر کے اسے بھٹو جی کے دیئے ہوئے مکان میں بسانا ہوگا۔ پھر ہم ہونگے ، ہمارا گھرانہ ہوگا اور چہار سو خوشحالی کا ترانہ ہوگا۔ پھر یوں ہوا کہ ہمارے اس ’’راہبر‘‘ کے عزائم کے زیر اثرہماری سوچ عوامی ہوگئی ، ریل کی کوچ عوامی ہوگئی،’’گالی گلوچ‘‘ عوامی ہوگئی،پیروں میںآنے والی موچ عوامی ہوگئی۔ ذرا اور وقت گزرا تو ہم نے اپنے ارد گرد دیکھے سوٹ عوامی، لُوٹ عوامی، جھوٹ عوامی، بوٹ عوامی۔پھر یوں ہوا کہ وقت گزرتا رہا ،مکان تو نہ ملا مگرہم عمر کی اس منزل پر پہنچ گئے کہ اگر ’’خوشحالی‘‘کا مزید انتظار کرتے توکوئی ’’بینا‘‘ کبھی ہم قدم نہیں ہو سکتی تھی اور زندگی گزارنی مشکل ہو جاتی کیونکہ یہ تو ’’دو پہیوںوالی گاڑی‘‘ ہے ، اسے ایک پہئے پر زیادہ عرصے گھسیٹا نہیں جا سکتا چنانچہ ہم نے عقل کے ناخن لئے، رہنما کا دکھایا ہوا سبز باغ ذہن و دل سے حرفِ تضحیک‘‘ کی طرح مٹا دیااور کسی مکان شکان کے بغیر ہی صنف نازک کو ازدواجی بندھن میں باندھ کر لے آئے ۔اپنے سکون کے لئے کرائے کا ایک مسکن سجایا اوراس میں شریک سفر کو چھوڑ کرروٹی کپڑے کے لئے پردیس کی تنہائی کے ہم قدم ہوگئے۔
پھر یوں ہوا کہ لمحے ساعتوں میں، ساعتیںگھنٹوںمیں، گھنٹے دنوں میں، دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے رہے ، گزرے وقت کا انبار لگ گیاجسے بلائو تو آتا نہیں، بھلائو تو جاتا نہیں، اسے اپنائو تو بھاتا نہیں۔عمر کی وہ منزل آ پہنچی کہ دل کی دھڑکنیں بھی مستعار لگنے لگیں، خوشحالی کی سوچیں ذہن پر بار لگنے لگیں،ماضی کی باتیںخار لگنے لگیں، حال کی ساعتیں مستقبل کا استفسار لگنے لگیںپھر یوں ہوا کہ :
ہم وطن عزیز میں تھے ۔ دن چڑھے کئی گھنٹے گزر چکے تھے ۔ نیم غنودگی کا عالم تھا، بیگم کی آواز پربستر سے اٹھنے کے لئے کمر بستہ ہونے کی کوشش کرتے مگر پھر ہمت نہ ہوتی تو چادر میں منہ چھپا کر پھر آنکھ موند لیتے ۔ اسی دوران ایک شور ہوا، ہم 45 برس بعد ایک بار پھر ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے، ایک پرعزم رہنما کے روپ میں ایک فرد خطاب کر رہا تھا۔ وہ کہہ رہا تھاکہ ’’میرے پاکستانیو!مدینہ منورہ جیسی طرز کی خوشحال ریاست میرا خواب ہے، میں پاکستانی قوم کو پیروں پر کھڑا کرنا چاہتاہوں، میں اپنی قوم کو عزت و وقار سے جینا سکھاناچاہتا ہوں تاکہ اسے غیروں سے قرض نہ لینا پڑے، اسے کسی سے بھیک نہ مانگنی پڑے،وہ اقوام عالم میں سر اٹھا کر جی سکے۔میں پاکستان سے بدعنوانی اور لوٹ مار ختم کر کے اسے ایسا ملک بنانا چاہتاہوں کہ پاکستانیوں کو بیرون ملک جا کر نوکریاں نہ کرنی پڑیں بلکہ باہر سے لوگ ملازمتوں کے لئے پاکستان آئیں۔پاکستانیو، آپ کو مبارک ہوکہ وطن میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ تبدیلی آ چکی ہے.......‘‘
یہ تقریر سن کرہم نے بے ساختہ نعرہ لگایا’’اک واری فیر‘‘ کیونکہ ہوا یوں کہ کئی دہائیوں کے بعد زندگی میں ایک بار پھردل نے انگڑائی لی، نئی امیدوں کی ہوائیں چلنے لگیں، چہار سو ارمانوں کے پھول کھل اٹھے، خواب دیکھ دیکھ کر چکنا چور ہو جانے والی آنکھوں کو وطن اور اہل وطن کا مستقبل درخشندہ دکھائی دینے لگا۔ایک بار پھر خرد نے باور کرایا کہ اسے کہتے ہیں حقیقی رہنما، انگریزی میں اس کا ترجمہ ہے ٹرولیڈر۔عمران وہ شخصیت ہیں کہ جن کے بارے میں ان کے مخالفین کہتے ہیں کہ وہ جب ضد پر آجائیں توکسی کی نہیں سنتے، وہ جی میں جو ٹھان لیتے ہیںوہ کر کے چھوڑتے ہیں۔ عقل نے دلیل دی کہ مخالفین جسے ’’ضد‘‘ کہہ کر منفی رنگ دینا چاہتے ہیں وہی در اصل حقیقی رہنما کا ’’عزمِ راسخ‘‘ ہوتا ہے۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو ایسا ہی رہنما درکار ہے ۔ 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں