Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی حقوق سے متعلق مغربی دنیا کا نقطہ نظر

عبداللہ فراج الشریف۔المدینہ
ہمیں ایک لمحے کیلئے بھی اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ انسانی معاشروں میں انسانی حقوق پر سب سے زیادہ توجہ دی جانی ضروری ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ تمام حقوق ایسے نہیں جن پر اقوام عالم متفق ہوں۔ بعض حقوق ایسے ہیں جن کی بابت اقوام عالم میں اختلاف ہے کہ آیا وہ انسانی حقوق کی فہرست میں شامل ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر بعض معاشرے سمجھتے ہیں کہ کسی بھی جرم کے ارتکاب پر انسان کی گردن نہ اتارنا انسانی حقوق میں شامل ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کی جان لی ہو تب بھی اس کی گردن زدنی کو انسانی حقوق کے منافی مانا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اسلام کا موقف یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے ناحق کسی شخص کا قتل جان بوجھ کر کیا ہو تو جان کے بدلے جان کے اسلامی قانون کے بموجب قاتل کو موت کی سزا دی جائے۔اسی طرح بہت سارے معاشرے ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی مرد اور کسی بھی عورت کو رشتہ زوجیت کے دائرے سے خارج تعلق قائم کرنے کا حق ہے جبکہ اسلامی شریعت کہتی ہے کہ اگر کسی مرد یا کسی عورت نے رشتہ زوجیت سے خارج ہوکر میاں بیوی کا تعلق قائم کیا اور اس تعلق کو بھرپور طریقے سے ظاہر بھی کیا تو ایسا کرنیوالے کو زنا کے ارتکاب کی سزا دی جائیگی۔ بعض معاشروں میں ہم جنس پرستی ممنوع ہے۔کئی معاشرے اسے گھناﺅنا عمل سمجھتے ہیں جبکہ بہت سارے مغربی معاشرے اسے مردو زن کے انسانی حقوق کی فہرست میں داخل کئے ہوئے ہیں۔ یہ معاشرے اس طرح کے غیر اخلاقی تعلق کو استوار کرنیوالوں کی پاسبانی بھی کرتے ہیں۔ مغربی معاشرے اس عمل کے مرتکب افراد کو کسی بھی طرح کی سزا دینے کے مخالف ہیں۔حد تو یہ ہے کہ مغربی ممالک کے بعض وزراءہم جنس کو بیوی کے طور پر رکھے ہوئے ہیں۔ 
انسانی حقوق کا مسئلہ مشرق ہی نہیں مغربی دنیا میں بھی متعدد گتھیاں رکھتا ہے۔ بعض اوقات ایک ملک کسی ایک عمل کے ارتکاب پر اپنے یہاں رہنے والے اپنے شہری یا غیر ملکی کو سزا دیدیتا ہے جبکہ وہی عمل دوسرے ملک میں جرائم کی فہرست میں شامل نہیں ہوتا اور اسے جائز عمل سمجھاجاتا ہے۔ اس کی مثال میں تعدد زوجات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ مسلم معاشروں میں تعدد زوجات اہل اسلام کا حق مانا جاتا ہے جبکہ مغربی دنیا اسے انسانی حقوق کی فہرست میں شامل نہیں کرتی۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر ملک و قوم کی ثقافت میں انسانی حقوق کا تصور دوسرے ملک و قوم کی ثقافت میں رائج انسانی حقوق کے تصور سے مختلف ہے۔انسانی حقوق کے تصور میں اختلاف کی انتہا یہ ہے کہ ایک عمل ایک جگہ جائز اور حق شمار کیاجارہا ہے اور دوسری جگہ اسے ایسا جرم مانا جارہا ہے جس کی بیخ کنی ملک و قوم کے فرائض میں شامل ہے۔ 
طویل عرصہ سے مغربی ممالک انسانی حقوق کے نام سے ایسے ممالک پر جو ان کے دائرہ اثرو نفوذ سے خارج ہیں دباﺅ ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔مغربی ممالک کسی بھی ملک پر دباﺅ ڈالنے کیلئے اسے انسانی حقوق کا دشمن قراردیدیتے ہیں۔ مغربی ممالک یہ فیصلہ، اپنے مذہب،اپنی تہذیب اور اپنے یہاں رائج رسم و رواج کے تحت کرتے ہیں اور انسانی حقوق کا دشمن قراردیتے وقت متعلقہ ملک و قوم کے مذہب، تہذیب اور رسم و رواج کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ طریقہ کار اب انسانی حقوق کی کونسلوں اور اقوام متحدہ کے ماتحت انسانی حقوق کے اداروں میں بھی پھیل گیاہے۔ کہہ سکتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے ماتحت کام کرنے والے انسانی حقوق کے ادارے مغربی ثقافت کو معیار مان کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے فیصلے جاری کرنے لگے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کا انتہائی اہم اور موثر ترین ادارہ سلامتی کونسل ہے اور سلامتی کونسل وہ ادارہ ہے جس کا کوئی بھی فیصلہ 3مغربی ممالک، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی منظوری کے بغیر نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کے اس اہم ادارے پر راج کرنیوالے ممالک یہی ہیں لہذا اس کا کوئی بھی فیصلہ مغرب کے حوالے سے غیر جانبدار اور دیگر ممالک کے حوالے سے جانبداری پر مشتمل ہوتا ہے۔دنیا کی کوئی بھی حکومت جس کے یہاں اس قسم کی جانبداری ہو وہ منصف نہیں ہوسکتی۔ہمارے سامنے اس کی ٹھوس مثال اسرائیل کی شکل میں موجود ہے۔ اسرائیل کے خلاف بہت سارے مسائل میں مبنی برانصاف فیصلہ اسی لئے نہیں ہوپاتا کیونکہ اس فیصلے کو ویٹو کرنے کیلئے کئی ممالک موجود ہیں۔ بڑے ممالک اغیار کے خلاف جو چاہتے ہیں فیصلہ کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ کوئی بھی طاقت ان کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی نہیں ۔ سب لوگ اقوام متحدہ کے نظام کی اس خامی کو تسلیم کرتے ہیں تاہم آج تک کسی نے یہ جرا¿ ت نہیں کہ اسے حق و انصاف کی خاطر تبدیل کرالے۔ آج کی ہماری دنیا طرح طرح کے مسائل سے دوچار ہے۔ کوئی بھی اسے روکنے پر قادر نہیں کیونکہ عالمی نظام، انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکا ہے۔ اگر آج عالمی برادری دنیا کو انصاف فراہم کرنے کے سلسلے میں سنجیدہ ہو تو اسے موجودہ عالمی نظام سے دستبردار ہونا ہوگا۔ آیا ہم جو کچھ سمجھ رہے ہیں۔ اس کی تکمیل ممکن ہے؟
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: