Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گواہوں کا ردعمل غیرفطری‘، ماں کے قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والا بری

سلانوالی میں ہونے والے واقعے کا کیس ہائیکورٹ سے ہوتا ہوا سپریم کورٹ پہنچا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی ماں کے قتل کے الزام میں سزائے موت پانے والے محمد بلال کو بری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ قتل کا مقدمہ درج کرانے والے مقتولہ کے دوسرے بیٹے اور دیگر گواہوں کے بیانات سے وقوعہ کے وقت ان کا ردعمل ’غیر فطری‘ ثابت ہوتا ہے۔ 
 عدالت نے فیصلے میں واضح کیا کہ استغاثہ معقول شک سے بالاتر ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا اور اس کے فراہم کردہ شواہد میں ایسے نقائص پائے گئے جو ایک انسان کی جان لینے جیسے حتمی فیصلے کے لیے ناقابل قبول ہیں۔
 جسٹس اطہر من اللہ، جسثس عرفان سعادت خان اور جسٹس ملک شہزاد احمد خان پر مشتمل تین رکنی بینچ کے جسٹس عرفان سعادت کے لکھے فیصلے کے مطابق گواہوں کا بیان غیر متوازن، غیر حقیقی اور موقع کی نزاکت سے مطابقت نہ رکھنے والا ہے، جو ان کی وہاں موجودگی پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
یہ مقدمہ سنہ 2015 میں ضلع سلانوالی کے چک نمبر 64 ایس بی سے شروع ہوا، جب کلثوم بی بی کو ان کے گھر میں مردہ پایا گیا۔ ان کے بیٹے محمد عرفان نے پولیس کو اطلاع دی اور الزام عائد کیا کہ اس کا بھائی بلال اپنی والدہ سے منشیات کے لیے رقم مانگ رہا تھا، انکار پر غصے میں آ کر اس نے لکڑی کے ڈنڈے سے ماں پر حملہ کیا۔
استغاثہ کی پوری کہانی عرفان اور ایک پڑوسی محمد عمران کی عینی شہادت پر مبنی تھی۔ جنہوں نے بتایا کہ وہ موقع پر موجود تھے جب ملزم گھر میں داخل ہوا اور اس اونچی آواز میں کہا کہ وہ کلثوم بی بی کو زندہ نہیں چھوڑے گا اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے بلال کو کلثوم بی بی پر وار کرتے دیکھا۔
ٹرائل کورٹ نے ان بیانات کو کافی سمجھتے ہوئے بلال کو 2017 میں سزائے موت سنائی، جسے لاہور ہائی کورٹ نے 2020 میں برقرار رکھا۔ تاہم جب کیس سپریم کورٹ پہنچا تو تمام ثبوتوں اور بیانات کو از سرِ نو پرکھا گیا، جس میں سنگین خامیاں سامنے آئیں۔
سپریم کورٹ کے مطابق سب سے بڑی خامی چشم دید گواہوں کے رویے میں تھی جو انسانی فطرت کے خلاف تھی۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ اگر بیٹا اپنی ماں پر حملہ کر رہا تھا تو کیا باقی لوگ، خاص طور پر سگا بھائی، صرف تماشا دیکھتے رہتے؟

لاہور ہائیکورٹ نے 2017 میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے سنائی گئی موت کی سزا کو برقرار رکھا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت کو یہ بھی ناقابلِ یقین لگا کہ پانچ منٹ تک جاری رہنے والے حملے کے دوران نہ تو کسی نے مداخلت کی، نہ شور مچایا، نہ آس پاس کسی کو مدد کے لیے بلایا گیا۔ یہاں تک کہ بلال کے فرار ہونے کے بعد بھی کسی نے اسے پکڑنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ دونوں گواہان جسمانی طور پر مضبوط اور موقع پر موجود تھے۔
 عدالت نے قرار دیا کہ حملے کے وقت محض چھ فٹ کے فاصلے پر کھڑے افراد کی طرف سے نہ تو روکنے کی کوشش کی گئی، نہ مدد کو پکارا گیا، اور نہ ہی ملزم کو بھاگنے سے روکا گیا، جو ایک فطری انسانی رویے کے منافی ہے۔
اس کے علاوہ گواہوں کے بیانات میں تضاد، طبی اور چشم دید شواہد میں عدم مطابقت، مبینہ ہتھیار کی ناقابلِ اعتبار بازیابی اور ثابت شدہ محرک کی عدم موجودگی جیسے عناصر نے مجموعی طور پر مقدمے کو مشکوک بنا دیا۔
فیصلے میں عدالت نے ان نکات کو مزید تقویت دینے کے لیے اپنے سابقہ فیصلوں کا حوالہ بھی دیا۔ عدالت نے پٹھان بنام ریاست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جب گواہوں کا رویہ فطری انسانی ردِعمل سے متصادم ہو، تو ان کے بیانات پر سزا کی بنیاد رکھنا انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔
اسی طرح میاں سہیل احمد بنام ریاست کے مقدمے میں بھی عدالت نے یاد دہانی کرائی تھی کہ عوامی جگہوں سے برآمد ہونے والے ہتھیاروں پر بغیر فرانزک ثبوتوں کے سزا سنانا خطرناک نظیر بن سکتا ہے۔
عدالت نے زور دیا کہ ایک بھی معقول شک سزا کو غیر مؤثر بنا دیتا ہے، خاص طور پر ایسے معاملات میں جہاں انسانی جان داؤ پر لگی ہو۔
فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ’عرفان اور عمران کے بیانات میں بھی واضح تضاد پایا گیا۔ عرفان نے دعویٰ کیا کہ بلال نے ایک ضرب لگائی، جبکہ عمران کے مطابق چار سے پانچ وار کیے گئے اور پوسٹ مارٹم رپورٹ میں متوفیہ کے سر پر صرف دو چوٹیں درج تھیں، جو کہ دونوں گواہوں کے بیانات سے میل نہیں کھاتیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ استغاثہ معقول شک سے بالاتر ثبوت پیش کرنے میں ناکام رہا (فوٹو: اے ایف پی)

تیسرے اہم چشم دید گواہ محمد ارشد کا بیان استغاثہ نے عدالت میں پیش ہی نہیں کیا، جس سے گمان ہوتا ہے کہ مکمل تصویر عدالت کے سامنے نہیں رکھی گئی۔‘
فیصلے کے مطابق ’مبینہ ہتھیار، ایک لکڑی کا ڈنڈا کھلی جگہ سے کئی دن بعد برآمد ہوا، جس پر نہ خون کے دھبے تھے، نہ کوئی فرانزک یا سیرولوجیکل تجزیہ کیا گیا، جس سے اس ہتھیار کو وقوعہ سے جوڑنے کے لیے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں رہا۔‘
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’آخر میں، استغاثہ جس محرک پر مقدمہ کھڑا کرنا چاہتا تھا، یعنی بلال کا منشیات کا عادی ہونا، اس کا بھی کوئی ثبوت عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا نہ کوئی میڈیکل رپورٹ، نہ کوئی پرانا واقعہ اور نہ ہی کسی اور گواہ کی جانب سے اس کے نشے کا عادی ہونے کی تصدیق ہوتی ہے۔‘
ان تمام شواہد اور کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے عدالت نے فیصلہ دیا کہ شک کا فائدہ بلال کو دیا جانا چاہیے اور اس بنیاد پر اسے بری کرتے ہوئے فوری رہائی کا حکم دیا۔
عدالت نے فیصلے کے آخر میں لکھا کہ ’سزائے موت جیسے انتہائی فیصلے صرف انہی مقدمات میں دیے جانے چاہئیں جہاں ثبوت غیرمعمولی حد تک واضح، ٹھوس اور ناقابل تردید ہوں۔‘ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ فوجداری انصاف کے نظام میں اگر شک باقی رہ جائے تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ ملزم کو بری کر دیا جائے۔

 

شیئر: