Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یمن پر عالمی رپورٹ انتہائی ناقص

احمد بن عثمان التویجری۔الحیاة 
 قسط نمبر 3
بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے مارچ2015سے لیکر مارچ 2016کے درمیان یمن میں ہونیوالی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر حقائق تو جمع کئے ہیں البتہ ان کی بابت دقیق ترین پوچھ گچھ اور قانونی رائے دہی کے سلسلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے (رپورٹ کی شق 62اور 63اس کا ٹھوس ثبوت ہیں)۔
کمیشن کے ارکان نے رپورٹ میں تحریر کیا کہ حوثیوں نے شہریوں کی تلاشی کیلئے چیک پوسٹیں قائم کیں، شہریوں سے نجی املاک چھین لیں۔انہیں نجی سامان چھوڑے بغیر شہر سے نکلنے کی اجازت نہیں دی بلکہ شہریوں سے کھانے پینے کا سامان اور بیشتر نجی دوائیں تک لوٹ لیں ، ضبط کرلیں۔علاوہ ازیں انسانی بنیادوں پر امدادی سامان لے جانے والے ٹرکوں کے عمل کو بھی معطل کیا۔ تحقیقاتی کمیشن نے اس سب کے باوجود رپورٹ کی شق 64میں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا”ایسا لگتا ہے کہ حوثیوں کے سپاہیوں نے جو پابندیاں عائد کی ہیں وہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نظر آتی ہیں“۔ یہ جملہ ظاہر کررہا ہے کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کو بین الاقوامی فوجداری عدالت کے قانون کی دفعہ 8کی شق Hکا علم ہی نہیں تھا۔ انہیںبین الاقوامی مسلح لڑائیوں کے متاثرین کے تحفظ سے متعلق جنیوا معاہدوں کے اضافی پروٹوکول 2کی دفعہ 4کی دوسری شق کا بھی پتہ نہیں تھا۔ ان دونوں شقوں میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ مسلح تنازعات کے دوران شہریوں کے ساتھ لوٹ مار کے واقعات جنگی جرائم اور انسانیت سوز جرائم شمار ہونگے۔عجیب بات یہ ہے کہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن میں قانون کے ماہر موجود تھے۔ 
بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے بدسلوکی ، جبر و تشدد ، زبردستی لوگوں کو منظر عام سے غائب کرنے اور قانون کی روح کے منافی زیر حراست لینے والے واقعات اور جرائم کے تذکرے کیلئے پوری ایک فصل مختص کی۔ کمیشن نے رپورٹ کی 65سے لیکر 72ویں شق تک اس حوالے سے ایسے واقعات تفصیل کے ساتھ بیان کئے جن کے دعویداریا تو حوثی تھے یا یمن کی آئینی حکومت کے مخالف اور عرب اتحاد میں شامل ممالک کے دشمن تھے۔رپورٹ میں یمن ، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی حکومتوں کیخلاف صریح الزامات کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ مذکورہ ممالک کی حکومتوں کے اہلکاروں نے انسانی حقوق کی ایسی خلاف ورزیاں کی ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں شامل ہوسکتی ہیں۔دوسری جانب تحقیقاتی کمیشن کے ارکان نے جب حوثیوں کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا( کمیشن کے اہلکار ان کا ذکر عملی حکام کے نام سے کرتے ہیں) تو اس ضمن میں شق نمبر 74سے لیکر شق نمبر 79تک بے معنی قسم کے جملے تحریر کرنے پر اکتفا کیا۔ انہوں نے تحریر کیا ”ستمبر 2014سے عملی حکام نے حوالاتی اداروں پر اپنا کنٹرول مضبوط کیا، ان سے قبل حکومتی اہلکار اِن اداروں کے منتظم تھے۔عملی حکام نے صنعاء، صعدہ، مآرب، الحدیدہ اور تعزکے بعض مقامات پر قبضہ کرنے کے بعد حراست خانوں کو اپنے کنٹرول میں لیا تھا۔ انہوں نے ان کے نگراں بھی متعین کئے تھے“۔
کمیشن کے اہلکار شق نمبر 79میں لکھتے ہیں ”بہت سارے زیر حراست سابق قیدیوں کا خیال ہے کہ انہیں قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہا کردیا گیا“۔کمیشن کی رپورٹ تیار کرنیوالوں نے حوثیوں کے حوالے سے یہاں جو کچھ تحریر کیا وہ ادب نگاری کے دائرے میں آتا ہے،بین الاقوامی قانون کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔ انہوں نے اس حوالے سے وہ ذمہ داری پوری نہیں کی جس کی تکمیل کیلئے ان کی تقرری عمل میں آئی تھی۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس قسم کی عبارتیں رپورٹ میں شامل کرنے کا مقصد ایک طرح سے حوثیوں اور آئینی حکومت اور ان کے اتحادیوں کے تصرفات کے درمیان توازن پیدا کرنے کی بالقصد کوشش ہے۔
تحقیقاتی کمیشن کے ارکان نے ایک فصل اظہار رائے کی آزادی کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے تیار کی ہے۔ کمیشن نے اس فصل میں تمام فریقوں کو ایک ڈنڈے سے ہانکنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے حوثیوں کے اُن جرائم جنہیں یمن کی سول سوسائٹی دستاویزی شکل میں پیش کرچکی ہے اور عرب اتحاد برائے یمن میں شامل فریقوں کے تجاوزات کے درمیا ن کوئی فرق نہیں کیا۔ اتحادیوں کے خود ساختہ تجاوزات کو قانون کے تقاضوں کے مطابق درج کرنے کا اہتمام بھی نہیں کیا گیا۔ مثال کے طور پر کمیشن نے دنیا بھر کے ملکوں میں ذرائع ابلاغ کی سرکاری نگرانی اور حوثیوں کی جانب سے ذرائع ابلاغ کے خلاف مجرمانہ سرگرمیوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا۔ کمیشن نے شق نمبر 85میں تحریر کیا ”2015ءسے عملی حکام (حوثیوں) نے اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں خوف و ہراس پھیلانے ، قانون کی روح کے منافی گرفتاریوں اور ناقدین پر جبر و تشدد سے کام لیا، علاوہ ازیں صنعاءمیں ابلاغی اداروں پر چھاپے مارے ،نیوز ویب سائٹس بندکیں، ٹی وی چینلز کو کنٹرول کیا، اخبارات کو رپورٹیں جاری کرنے سے روکا، سول سوسائٹی کی بہت ساری تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مار کر سربمہر کردیا، سیاسی فریقوں سے وابستگی یا لڑائی کا سلسلہ جاری رکھنے سے متعلق آراءکے اظہار پر صحافیوں کو پریشان کیا گیا“۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن کے برسرپیکار فریقوں کے تصرفات کی بابت اس قسم کا انداز ِبیان حوثیوں کی کھلی جانبداری سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
(جاری ہے)
(کالم نگارماہر آئین و انسانی حقوق و سربراہ تنظیم عالمی عدالت ہیں)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر: