Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خاتون آہن بھی چل بسی

***سید شکیل احمد ***
          کلثوم نو از خاتون آہن بھی چل بسیں ،جو قوم کے لیے ایک بہت بڑا خسارہ ہے ۔اگر کینسر کا موذی نا گ ان کی گردن کو نہ ڈستاتو اس وقت مسلم لیگ کی قیا دت محترمہ کے ہاتھ میںہی ہو تی ، جس طرح پر ویز مشرف نے جمہو ریت کا گلہ دبا دیا تھا اس وقت جس آن بان شان اور بے دھڑکے خاتو ن آہن محترمہ کلثوم نو از نے للکار ا یہ اسی خاتو ن کا وصف تھا ۔پر ویز مشرف کے گما ن میں بھی نہ تھا کہ ایک خاتو ن اس کی آمریت کو للکار ے گی اور پہاڑ بن جا ئیگی ۔اس خاتون آہن کے وہ الفاظ آج بھی کا نو ں میں گونج رہے ہیں جب مشرف نے میا ں شریف کے خاندان کو پو پھوٹنے سے پہلے پہلے تاریکی میں ملک بد ر کیا تھا ،اس وقت محترمہ نے قوم کے نا م اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ہم رات کے اندھیر ے میں ملک سے خود سے فرار نہیں ہو رہے، یہ آمر ہم کو زبردستی تاریکی میں ملک سے نکا ل رہا ہے ۔
        پا کستان میں جر ی ، دلاور ، سورما اور خواتین کی کوئی کمی نہیں۔ اپنے حقوق کو اس ملک کا بچہ بچہ پہچانتا ہے اور آمر سے ٹکر ا نا بھی جانتا ہے ۔وہ ملک کی آن بان کا احساس بھی رکھتا ہے۔ یہ ملک بڑی زرخیر زمین کا حامل ہے ۔ پاکستان کی تاریخ میں ویسے درجنو ں خواتین کے نا م گنو ائے جا سکتے ہیں جنہو ں نے ملک کی عظمت اور حقوقِ عوامی کے لیے عظیم جدوجہد کی ہیں مگر  5 خواتین ایسی ہیںجن کے نا م تاریخ عالم میں ہمیشہ جگ مگ کرتے رہیں گے اور کبھی بھی نہیں دھند لا ئیں گے ، ان میں پہلا نا م محترمہ فاطمہ جنا ح کا ہے جو نہ صرف جدوجہد آزادی میں قائد اعظم کے قدم بہ قدم ساتھ رہیں ، پھر جب ایو ب خان کو للکا رنے کا وقت آیا تو اس وقت کسی سیا ست دان میں ہمت نہ تھی کہ وہ ایو ب خان جیسے مقبول حکمر ان سے ٹکر ائے۔ اس وقت مادرملت فاطمہ جنا ح واحد خاتو ن تھیں جو ایو ب خان کے سامنے ڈٹ گئیں ۔اسکے علا وہ جنر ل ضیا ء الحق کیخلا ف سب سے پہلی آواز بلند کر نے والی خاتون آہن ہو نے کا اعزا زمحترمہ بے نظیر بھٹو کو حاصل ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کے لیے ایسی عظیم قربانیاں ہیںکہ رہتی دنیا تک اس کو فرامو ش نہیں کیا جا سکتا۔ انھو ں نے قید وبند ، زندان کے جبر شدائد ، مصائب تکا لیف برداشت کیں حتیٰ کے عوام کے حقوق کے لیے جان تک قر بان کر دی ۔ایسی مثال دنیا میں شاذر ونا در ہی ہے ۔
          پاکستان کی تیسری خاتو ن آہن محترمہ بیگم نسیم ولی خان ہیں جنہو ں نے ایک سویلین آمر ذوالفقار علی بھٹو کا مقابلہ کیا ۔وہ کیا وقت تھاکہ کہ بیگم نسیم ولی خان کے گھر انے کے سب مر دو ں کو زند ان میںڈال دیا گیا تھا۔ گھر میں کوئی مرد نہ بچا تھا ، ان کے خسر اور عظیم قائد جدوجہد آزادی ہند باچا خان بھی جیل کی کو ٹھری میں ان کے شوہر خان عبدالولی خان جن کی آنکھ جمہوریت کی جدو جہد کی نذر ہو گئی کا ل کوٹھری میں بند کر دیئے گئے ۔ان کے صاحبزادے جو اس وقت نوجو ان تھے یعنی اسفند یا ر ولی خان کوبھی جیل کی سلا خوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ بھٹو کا خیال تھا کہ با چا خان کے تما م مر د جیل میں ڈال دئیے گئے ہیں ،پیچھے کوئی ایسا نہیں بچا کہ ان کی آمریت کو چیلنج کر ے یا اس سے ٹکر ائے۔ ایسے میں بیگم نسیم ولی خان جمہو ریت اور حقوق کا علم بلند کرتی ہوئی مید ان سیا ست میں اتریں ۔ وہ پٹھان معاشرے کی حیا اور شرافت کی پیکر تھیں ۔اس وقت کوئی سو چ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ خاتون اس بے جگری سے ایک آمر کا مقابلہ کرے گی ۔ وہ ایک پر دے دار خاتون تھیں ۔گھر یلو خواتین میں شما ر کی جا تی تھیں لیکن جب وہ مید ان سیا ست میں آئیں تو ا سکے باوجو د انھو ں نے جس لبا س کا انتخاب کی وہ اپنے معنو ں اور بھٹو حکومت کے لیے کئی گہر ے اثرات کا حامل تھا ۔وہ سیا ہ لبا س پہن کر سیا ست میں وارد ہوئیں اور اس وقت تک اس سیا ہ لبا س میں ملبو س رہیں جب تک کہ بھٹو آمر یت کا خاتمہ نہ ہو گیا اور لباس بھی اس طرز کا جو ایک مسلما ن خاتو ن کی شایا ن شا ن ہو ۔ اپنی روایا ت کو برقرار رکھا اور ثابت کیا کہ جب قحط الر جا ل ہو جائے تو ایک گھریلو اور مسلما ن خا تون بھی عوام کی قیادت کی پو ری صلا حیت رکھتی ہے ۔نسیم بیگم نے جمہوری حقوق کے لیے کیا کیا صعوبتیں بر داشت کیں وہ بھی عظیم داستان ہے ۔
  محترمہ کلثوم نو ا ز اور بیگم نسیم ولی خان کی سیا سی جد وجہد میں کا فی مطا بقت پائی جا تی ہے ۔دھیمے لہجے کی کلثوم نو ا ز بھی خاندانی شرافت کا پیکر تھیں ۔ اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہو نے کے باوجود موجودہ دور کی خواتین کی طرح رکھ رکھا ؤ نہ تھا ۔ایک سادگی من کے اند ر اور باہر بھی تھی بلکہ اکثریت کو یہ علم ہی نہیں تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم یا فتہ ہیں اور انھو ں نے اپنا تعلیمی سلسلہ شادی کے بعد بھی جا ری رکھا حتیٰ کے اردو ادب میں ایم اے کیا پھر فلسفہ میںما سڑ کی ڈگر ی لی اور آخر میں فلسفہ میںڈاکڑیٹ کی سند حاصل کی ان کی انہی اعلیٰ صلاحیتو ں کی بنا ء پر نو از شریف ہر معاملے میں ان کی رائے کو مقدم جا نتے تھے۔ اس بہادر خاتون نے پر ویز مشرف کا جس بہا دری ، بیباکی سے مقابلہ کیا اس کا انداز ہ یو ں لگا یا جا سکتا ہے کہ جب پر ویز مشرف نے جمہوریت کا تختہ الٹ دیا اور میا ں نواز شریف کے سارے خاندان کو گرفتار کر کے گمنا م مقامات میں ڈال دیا اور کچھ کو ملک بدر کر دیا تو اسی وقت کلثوم نو ا ز نے انہیں للکا ر اور لا ہو ر کے مال روڈ پر احتجاجی جلو س کی قیادت کی ۔اس جلو س کو روکنے کے لیے پرویز مشرف نے لاکھ جتن کئے ، حتیٰ کہ جس گاڑی میں وہ سوار تھیں ان کو جلو س میںجانے روکنے کے لیے کرین سے ان کی گاڑی کو اٹھا لیا گیا ۔ اس گاڑی میں سوار کلثوم نو ازبھی گھنٹوں لٹکی رہیں ۔چہر ے پر کوئی خوف نہ عیا ں ہو ا ۔جب مسلم لیگی کا رکنو ں نے کرین کا محاصرہ کر لیا تو مجبور ہو کر گاڑی کو کر ین سے اتارا گیا ۔
       آج جس صعوبتوں سے نو از شریف کا خاندان دوچار ہے ، باچا خان کے خاندان کی طر ح نو از شریف بھی اپنی بیٹی مریم نو از اور داما د صفدر کے ہمر اہ جیل کا ٹ رہے ہیں۔ ان حالا ت میں اگر کلثوم نو از صحت یا ب ہوتیں اور زندہ رہتیںتو یقین سے کہا جا تا ہے کہ وہ مسلم لیگ ن کی قیادت بھر پور انداز میں کررہی ہوتیں ۔نو از شریف نے پاکستان کے آئین کی سر بلند ی اور قانو نی کی پا س داری ایسے وقت میں کی جب ان کی غم خوار، مونس ومودت ، شریک زندگی موت وحیا ت کی کشمکش میں مبتلاء تھیں۔ آج جب انھو ں نے اپنی سانس خالق حقیقی کے سپر د کر دیں وہ بھی نو از شریف کے خاند ان کے لیے ہی نہیں پا کستان کے عوام کے لیے تاریخ کا اہم حصہ ہے ۔ ان تاریخی لمحات میں نو از شریف سے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب ان کے پا س کھو نے کے لیے کچھ نہیں ۔
 

شیئر: