Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قیامت تک کیلئے فرض، شعوری ہجرت

 مادی ہجرت بعض حالات میں فرض ہے مگر یہ ہر حال میں فرض ہے، ان کاموں کو ترک کرنا جو اللہ کونا پسند ہوں شعوری ہجرت ہے

اسلامی ریاست کے قیام کی صورت میں مشرکوں کی سرزمین سے اسلام کی سرزمین کی طرف ہجرت کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔ ایسے عالم میں ہجرت حالات کے حساب سے ہوگی۔اصل مقصد نئی اسلامی ریاست کی تقویت ہے۔ اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے تو اسے افرادی قوت، سائنسداں اور تکنیکی عملہ درکار ہوتا ہے۔ نئی ریاست کو کس قسم کے افراد درکار ہیں اِس کا فیصلہ ریاست کے قائدین کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ غیر منظم اور اندھی ہجرت نئی ریاست پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ اگر اس قسم کی ہجرت شروع کردی جائے تو اس سے نئی ریاست کی ترقی کو لگام لگ سکتی ہے۔
    جہاں تک شعوری ہجرت کا تعلق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے ہرکام کی مخالفت اور ایسے ہرعمل کی نکیر کی جائے جو اللہ کو پسند نہ ہو یا وہ کام اسلامی شریعت کے منافی ہو۔ مسلمان اس قسم کی مخالفت کا اظہار ہر طرح کے وسائل کے ذریعے کرتا ہے۔ کبھی زبان سے ،کبھی دل سے کبھی اعضاء و جوارح سے ۔ مسلمان غیر اسلامی اعمال کو بدلنے کیلئے جملہ وسائل بروئے کار لاتا ہے۔ رسول اللہ   کا ارشاد ہے:
     ’’تم میں سے جو شخص کوئی برا کام دیکھے تو اسے اپنی طاقت سے بدل دینا چاہئے، اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو برے کام کی نکیر زبان سے کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنے دل سے برے کام کو برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘۔‘
    شعوری ہجرت کی اساس نیت پر ہے، رسول اللہ کے ارشاد کا مفہوم ہے:    ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ ‘‘ہر انسان کو اپنی نیت کے مطابق اجرملے گا لہذا جو شخص اللہ اور اس کے رسول کیلئے ہجرت کریگا تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کیلئے شمار ہوگی اور جو شخص دنیا کیلئے ہجرت کریگا اسے دنیا مل جائیگی۔ جو شخص کسی عورت کیلئے ہجرت کریگا وہ اس سے نکاح کرلیگا۔جو جس نیت سے ہجرت کریگا وہی اسے حاصل ہوگی۔
    اگر مادی ہجرت بعض حالات میں فرض ہوتی ہے تو شعوری ہجرت ہر حال میں فرض ہوتی ہے کیونکہ شعوری ہجرت کا تعلق ایسے کاموں کے ترک کرنے سے ہے جو اللہ کو پسند نہ ہو، یہ ہجرت قیامت تک برقراررہے گی۔ صحیح مسلم میں ہے ،مجاشع بن مسعود السلمیؓ کہتے ہیں کہ میں اپنے بھائی ابو معبد کو رسول اللہ کے پاس فتح مکہ کے بعد لیکر آیا۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول() ! ان سے ہجرت پر بیعت کرلیجئے،رسول اللہ نے جواب دیا:
    ’’ ہجرت اہل ہجرت کے ساتھ تمام ہوگئی۔‘‘
     مجاشع نے کہا: تو آپ()کس بات پر ان سے بیعت لینگے؟
    رسول اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:
    ’’میں ان سے اسلام ، جہاداور بھلائی پر بیعت لونگا۔‘‘
     رسول اللہ   کا ارشاد ہے:
     ’’ہجرت ،توبہ کے انقطاع تک ختم نہیں ہوگی اور توبہ اس وقت تک بند نہیں ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔‘‘
    جہاں تک رسول اللہ کے اس ارشاد کا تعلق ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ’’ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی ،البتہ جہاد اور نیت برقرار ہیں۔ ‘‘اس کا مفہوم یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت ختم ہوگئی ہے۔
    ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور ترک کرنے کا پابند ہے۔ ہر مسلمان حلال امور اپنانے کا پابند ہے کیونکہ دنیا میں خلیفۃ اللہ ہونے کا ہدف یہی ہے،سورۃالزاریات آیت  56میں ارشاد الٰہی ہے، ترجمہ دیکھئے:    ’’میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کیلئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں۔‘‘
    عبادت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کا دوسرا نام ہے، ممنوعات سے اجتناب ہی عبادت ہے۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ نے ہر اس شخص کیلئے جو ہجرت کا خواہاں ہو ہجرت کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھول دیا ہے، ارشاد رسالتؐ ہے:
    ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے عمل سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوںاور مہاجر وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے منع کردہ امور ترک کئے ہوئے ہو۔‘‘(بخاری)۔
    ابن حبان کی روایت میں مختلف الفاظ سے یہ روایت ملتی ہے،ترجمہ دیکھئے:’’مہاجر وہ ہے جو برائیاں ترک کردے اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور عمل سے مسلمان محفوظ ہوں۔‘‘
    نبی کریم نے ہجرت کے وسیع معنیٰ متعین کئے ہیں۔ یہ معنیٰ ایسے ہیں جن کے ڈانڈے انسانی زندگی کی گہرائیوں تک چلے گئے ہیں۔ہجرت کے یہ معنیٰ انسانی زندگی کیلئے صلاح و فلاح کی اساس فراہم کرتے ہیں،بنی نوع انساں کو امن و استحکام بخشتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف کے الفاظ ہجرت کے معنیٰ کی نشاندہی کے حوالے سے بہت جامع قسم کے ہیں۔ ہجرت اس حوالے سے عبادت کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔
    رسول اللہ   کی ہجرت کا مقصد اسلامی پیغام کو مکہ کے تنگ و تاریک دور سے مدینہ منورہ کے وسیع اور روشن ماحول فراہم کرنا تھا۔ اسلامی دعوت کیلئے ایسا ماحول مہیا کرنا تھا جہاںسکون و اطمینان کے ساتھ اسلام کے پیغام کو دنیا بھر کے انسانوں تک پہنچایا جاسکے۔ ہجرت سے رسول اللہ   کا مقصد انصار کی تعداد میں اضافہ اور دعوت کی حامی رائے عامہ پیدا کرنا تھا۔ ہجرت کا مقصد دعوت کے انتظامی ڈھانچے کی تکمیل بھی تھا۔ لمانوں کو آج بھی اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی اشد ضرورت ہے۔ ایسی ہجرت کی ضرورت ہے جس کے تحت مسلمانان عالم برائیاں ترک کرکے اسلامی شریعت کے نفاذ کو اپنا نصب العین بنائیں۔ایسا کرینگے تو نصرت ان کا نصیب بنے گی۔ جو مسلمان غیراسلامی اقوال و اعمال ترک کرکے اسلامی اعمال و اقوال کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنالیں اور وہ یہ پوچھیں کہ اب اللہ کی مدد کب آئیگی توان سے بلا خوف و خطر کہئے’’ بہت جلداللہ کی نصرت ہمیں حاصل ہوگی۔‘‘

مزید پڑھیں:- - - - -نیا ہجری سال ، عزم و ہمت کی داستان دہرانے کا سبب

شیئر: