Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نیا ہجری سال ، عزم و ہمت کی داستان دہرانے کا سبب

 جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے کسی چیز سے اپنے دامن کو جھاڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دامن کو نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے

حافظ سجاد الٰہی۔ ریاض

 
اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں ہوتا، چاہے اس حکمت تک انسانی عقل کی رسائی ہو یا نہ ہو۔ بہت سے احکام الٰہیہ اپنی ظاہری وضع میں کسی حکمت کے حامل نظر نہیں آتے لیکن جب کچھ عرصے بعد ان کی حکمت آشکار ہوتی ہے تو انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ہجرت نبویؐ تاریخ کے اوراق پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس دن رحمت عالم نے صدیق اکبرؓ کے ساتھ ایک ایسا سفر کیا  جس کی حکمتوں اور ضیاپاشیوں سے قیامت تک دنیا فیضیاب ہوتی رہے گی۔ ہجرت کا سفر جہاں اپنے اندر دروس کا سمندر سموئے ہوئے ہے وہاں وہ اس بات کا بھی مظہر ہے کہ جو لوگ ان حکمتوں اور دروس سے اپنے دامن کو زینت بخشیں گے ، نصرت الٰہی اور تائیدِ ربانی انہیں قدم قدم پر میسر آئے گی۔ ذیل میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ہجرت کے اس مبارک سفر سے حاصل ہونے والے لاتعداد فوائد اور دروس میں سے چند ایک کاذکر کیا جارہا ہے:۔
    یہ سفر جہاں اس بات کی خبر دیتا ہے کہ نبی کریم نے اسبابِ دنیا کو اختیار کیا، وہاں ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ اسباب اختیار کرنے کے بعد انہی پر توکل نہ کیا جائے بلکہ توکل کی مستحق وہی ایک ذات ہے، جو حی وقیوم ہے۔ نبی کریم کا غارثور میں حضرت ابوبکر ؓسے فرمانا: ’’  غم نہ کر، بے شک اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘
     اُسی ایک ذات پر مکمل تو کل کی نشاندہی کرتا ہے۔
    ہجرت کا سفر اپنی ابتدائی صورت میں دیکھنے والوں کو یہ تاثر دیتا ہے کہ دین حق کی دعوت روبہ زوال ہے کیونکہ اس دعوت کا سربراہ رات کی تاریکی میں دعوت کے مرکز کو چھوڑ رہا ہے لیکن جب یہی سفر نتیجہ خیز بن کر  مدینہ منورہ میں ایک اسلامی ریاست کی صورت میں ابھرتا ہے، تو دیکھنے والا بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ عاقبت اور بہترین انجام تو صرف متقی لوگوں کیلئے ہے۔
    ہجرت نبوی ؐاس بات پر واضح دلالت کرتی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل پیرا ہو اور اس سلسلے میں اپنی زندگی داؤ پر لگا دے تو تائیدِ غیبی قدم قدم پر اس کی حلیف ہوتی ہے۔ ہجرت کی رات جب نبی مکرم   کو قتل کرنے کی غرض سے آپکے گھر کا محاصرہ کیا گیا تو نصرت ِربانی نے اس طرح اپنا کام دکھایا  کہ آپ ان کی آنکھوں پر مٹی ڈالتے ہوئے گھر سے باہر نکل آئے اور ان کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ اس معنیٰ کو قرآن کریم اس طرح بیان کرتا ہے:
    ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ(کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
    سفرِ ہجرت ہمیں اس بات کا پیغام بھی دیتا ہے کہ فتح و کامرانی کا جام وہی لوگ پیتے ہیں جنہوں نے مصائب میں صبر کا دامن اور ظلمتوں میں اجالوں کی آس نہ چھوڑی ہو۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو اپنے محبوب کوہجرت کی ساری دشواریوں  سے محفوظ رکھتالیکن سنت ربانی یہی ہے کہ روشنی ہمیشہ تاریکیوں کی اوٹ سے نمودار ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
    ’’پس یقینا مشکل کے ساتھ آسانی ہے، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
    اس مبارک سفر میں یہ درس بھی پنہاں ہے کہ اگر ظلم وجور کا جواب عدل و احسان سے دیا جائے تو  پتھر  پگھل کر موم ہوجاتے ہیں اور کفر و بغاوت پر تلے ہوئے دل بھی رشدوہدایت کے سائے تلے آجاتے ہیں  اسی لئے جب سراقہ بن مالک ؓنے دوران سفر نبی کریم کا تعاقب کیا اور آپکے قریب آنے کے بعد اس کا گھوڑا اللہ تعالیٰ کے حکم سے گھٹنوں تک ریت میں دھنس گیا تو اس وقت نبی رحمت نے اس مجسمۂ سرکشی  سے ایسا برتاؤ کیا کہ کفر و ظلم سے لبریز ایک دل نور و ہدایت کی آماجگاہ بن گیا۔
    اس سفر سے ایک درس یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کیلئے کسی چیز سے اپنے دامن کو جھاڑ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دامن کو ان نعمتوں سے سرفراز کرتا ہے کہ جن تک اس کے وہم و گمان کی رسائی نہ ہو۔ ہجرت کے وقت کون کہہ سکتا تھا کہ یتیمِ مکہ   ایک دن اس سلطنت کے بانی کہلائیں گے جس کا رقبہ مغرب و مشرق کی وسعتوں کو سمیٹے  ہوئے ہوگا اور اس دین کے پھریرے، جسے آپلے کر آئے اوجِ ثریا کو اپنی اڑانوں سے دم بخود کردیں گے۔
    ہجرت نبویؐ سے صرف انسانوں کی کایا ہی نہیں پلٹی بلکہ اس کے دم سے شہروں  کی قسمت بھی بدل گئی۔ وہ یثرب جو ہجرت سے پہلے عرب کے شہروں میں قابل ذکر حیثیت کا مالک نہ  تھا، اب مدینۃ النبی کہلانے لگا اور تاریخ عالم میں اس کے نقوش کچھ اس طرح ثبت ہوئے کہ زمانے کے مدوجزر بھی اسے نہ دھندلا سکے اور یہ مبارک شہر اس اعزاز کا مستحق ٹھہر ا کہ دجال اور طاعون کا داخلہ اس میں  ہمیشہ کیلئے ممنوع قرار پایا۔
    ہجرت کا سفر ہمیں سچے، باوفا، مخلص اور بے لوث دوست کی نشانیوں سے آگاہی بخشتا ہے۔ ہجرت کا سفر اپنی تمام مشکلات اور خطرات کے باوجود صدیق اکبرؓ  کیلئے ایک روح پرور اور ایمان افروز سفر بن گیا۔ انہوں نے مصائب اور آلام کی مطلق پروا نہ کی بلکہ برضاورغبت ایسے سفر کیلئے رسول کریم کے ہمسفر بن گئے جو دنیا والوں کے نزدیک سراسر گھاٹے کا سودا تھا لیکن وہی سفر آخرکار صدیق اکبرؓ  کے متعلق قرآن کریم میں آیت کے نزول کا سبب بنا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ وفا اور اخلاص کا ایسا نقش صفحۂ تاریخ پر ثبت کر گئے جو قیامت تک لوگوں کیلئے مشعل راہ ہوگا۔
    ہر نیا ہجری سال عزم و ہمت کی داستان دہراتا ہے۔ کام کرنے والوں کو حوصلہ دلاتا اور آگے بڑھنے کی ترغیب دیتا ہے جبکہ آرام پسندوں اور غافلوں کو نئی زندگی استوار کرنے کی دعوت دیتا ہے کہ تم نے گزشتہ زندگی کسی ہدف کے بغیر بسر کی، اب وقت ہے کہ تم اپنی زندگی میں تلاطم برپا کرو کیونکہ ایسی زندگی غفلت اور کوتاہی کرنے والوں کیلئے  پیغامِ مرگ  ثابت ہوتی ہے۔
    اللہ تعالیٰ نئے ہجری سال کو تمام مسلمانوں کیلئے مبارک بنائے، آمین یارب العالمین۔
مزید پڑھیں:- - -  - -اللہ کے رسول کیلئے ڈھال بننے والے، سیدنا شَمَّاسؓ
 

شیئر: