Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہند کے مسلمان اور کسان

ظفر قطب ۔ لکھنؤ
ہندستانی سیاست میں اگر سب سے زیادہ جن کو بیوقوف بنایا گیا تو وہ کسان اور مسلمان ہیں ۔ اس کی خاص وجہ ان کا تھوک کے حساب سے پڑنے والا ووٹ ہے۔ جس پارٹی کو یہ  ووٹ ملے ان کا اقتدار پر قبضہ ہوگیا۔آزادی کے بعد سے ہی ان باتوں پر سب سے زیادہ توجہ کانگریس پارٹی نے دی اور سب سے زیادہ حکومت اس ملک  پراسی جماعت نے ہی کی لیکن اگر کسانوں اور مسلمانوں کی حالت پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلے گا کہ اس ملک میں سب سے زیادہ کسانوں اور مسلمانوں کا ہی استحصا ل ہوتارہا ہے۔ دونوں کو ملا کچھ نہیں۔  کسانوں کو اگر خود کشی پر مجبور ہونا پڑا تو مسلمانوں کو نفرت اور خوف کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوا۔ہاں یہ دوسری بات ہے کہ ہر سیاسی پارٹی نے دونوں کا استحصال ووٹ بینک بناکر کیا۔2014میں جب مودی حکومت اقتدار میں آئی تو اس نے پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ اسے مسلمانوں کا ووٹ نہیں چاہئے لیکن ایک ایسے جمہوری ملک میں جہاں آئین سب پر بھاری ہے اور اس قسم کے نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔کسی بھی سماج کو نفرت کی چھری سے کاٹا نہیں جا سکتا لیکن اس ملک کے فرقہ پرستوں نے برسوں قبل اس فارمولہ پر غور وفکر کے بعد یہ طے کرلیاتھاکہ جب اقلیتی فرقہ کے لوگ ہمارے خاص نظریہ کی بناپرہمیں ووٹ نہیں دیں گے تو پھر ہم کیوں نہ ایسی چال چلیں کہ ان کے ووٹ بے وقعت ہوکر رہ جائیں اور اس نے گزشتہ پارلیمانی الیکشن کے موقع پر ایسا ہی کیا ۔اسی فارمولہ کو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں بھی آزمایا گیا اور وہ کامیاب  بھی رہا۔اسکا احساس ہند کی سیکولر جماعتوں کو بہت دیر سے ہوا لیکن اقلیتی فرقہ اب بھی بیدار نہیں ہوا، وہ خواب غفلت میں مبتلا ہے۔ اس نے سیاست کی ریاضی نہ تو آزادی کی بعد پڑھی اور نہ ہی اقتدار سے بہت دور کر دیئے جانے کے بعد بھی۔ حد ہوگئی اب بھی بہت سے مسلم لیڈر اور پارٹیاں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ مسلمان جس کو چاہے کامیاب کردے اور جس کو چاہے شکست کے گڑھے میں گرادے  حالانکہ مذہب کی بنیاد پر دائیں بازو کی کٹر جماعتوں نے اس فارمولہ کو غلط قرار دے کر اکثریتی ووٹوں کو متحد کرکے کئی الیکشن جیت لینے کا کامیاب تجربہ کر لیاہے۔
حالانکہ فرقہ پرستوں کا یہ تجربہ ایک جگہ ناکام ہوتا نظر آرہا ہے  اور وہ ہے ملک کا کسان جس میں ہندو اور مسلم دونوں مذاہب کے لوگ شامل ہیں ۔اب وہ حکمراں جماعت بی جے پی سے خفا ہیں کیونکہ اس  سے جو وعدے وزیر اعظم مودی نے کئے تھے ان میں سے ایک وعدہ بھی پور انہیں کیا۔اپنے انتخابی منشور میں انہوںنے کسانوں سے جو اہم وعدے کئے تھے ان سے مُکر گئے ہیں۔ان کا ایک اہم وعدہ تھاکہ زرعی پیداوار اور کاشت کاروں کی آمدنی میں اضافہ کو اولیت دی جائیگی ۔مودی صاحب کے من کی بات اور پوری بی جے پی حکومت کے بیانات او ردعوؤں میں تو بڑا اضافہ ہواہے ، لیکن حکومت اگر اپنے ہی  اعدادوشمار دیکھے تو گزشتہ ساڑھے 4 برسوں  کے اندر کسانوں کی آمدنی اور پیداوار میں زبردست گراوٹ آئی ہے ۔اگر اس کے لیے ملک میں 2برس پڑنے والے قحط کو ذمہ دار مان لیا جائے تب بھی کسانوں کی آمدنی بہت گھٹ گئی ہے ۔اس کا ریکارڈ بتاتاہے کہ مودی حکومت کے ساڑھے 4 برسوں میں کسانوں کی آمدنی میں 2 فیصد بھی اضافہ نہیں ہواجبکہ بی جے پی حکومت کا دعویٰ آئندہ 6 برسوں میں صد فیصد اضافہ کردینے کاہے ۔ اس حکومت نے وعدہ کیاتھا کہ کاشت کاری میں آمدنی بڑھے گی لیکن ہوا اس کا الٹا۔اس سلسلہ میں فصلوں کے بیمہ کا وعدہ کیاگیاتھا لیکن انہیں ملا کچھ نہیں ۔اس اسکیم کا نام ہے وزیر اعظم فصل بیمہ منصوبہ جس کا پیسہ بیمہ کمپنیوں کو چلا گیا۔ اس سے کسانوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔مودی صاحب بزرگ کسانوں ، چھوٹے کاشت کاروں اور کھیت مزدوروں کی بہبود کے لیے جو منصوبہ لے کر آئے تھے  وہ اس کے نفاذ سے قبل ہی اس کو بھول بیٹھے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ کاشت کاری والی زمین  کے استعمال کی پالیسی کی بات بھی نہیں سنی جاتی  ۔منڈی قانون میں ترمیم کا وعدہ بھی اب اس حکومت کو یاد نہیں رہا ۔دوسری سچائی  یہ ہے کہ مودی حکومت کسانوں کو ان کے صرفہ کا ڈیڑھ گنا پیسہ دینے کے اپنے سب سے بڑے انتخابی وعدے سے مُکر گئی ہے۔پہلے تو فروری 2015میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ دیکر حکومت نے کہاتھاکہ اس وعدے کو نبھانا ممکن نہیں ، پھر جب کسان یونینوں اور تنظیموں نے اس پر زور دینا شروع کیا تو 2018ء کے بجٹ میں مرکزی وزیر مالیات ارون جیٹلی نے اس کے اصل صرفہ کے معنی ہی تبدیل کردیئے جو کسانوں کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکا ہے۔
کسانوں کو ایک اور مار اس وقت جھیلنی پڑرہی ہے جو اسے مودی حکومت نے ذبیحہ گاؤ کی شکل میں دی ہے ۔ جانوروں کی تجارت پر جو پابندیاں عائد کی گئیں  وہ ہندوستان کی تاریخ میں کبھی بھی نہیں تھیں ۔جانوروں کے تاجروں کو گائے اسمگلر کانام دیدیا گیاہے۔ انکی گرفتاری آزادانہ طور پر جاری ہے۔ اسکے علاوہ اگر اتفاق سے وہ مسلمان نکل آتا ہے توپھر اس کی موت طے ہے ۔اس قسم کے  واقعات ملک کے مختلف ریاستوں میں برابر پیش آرہے ہیں ۔بلرام پور ضلع میں تو ایک برہمن کو ہی اس غلط فہمی میں پکڑ کرپٹائی کی گئی کہ وہ مسلمان ہے ۔ اسکا منہ کالا کرکے زنجیر میں باندھ کر پوری بستی میں گشت کرایا گیا کیونکہ وہ ایک گائے لیکر جارہاتھا ، بعد میں پتہ چلا کہ وہ شخص  برہمن ہے اور اپنی گائے  علاج کیلئے مویشی اسپتال  لے جارہاتھا ۔ ملک میں اس قسم کا ماحول تیار ہوجانے کے بعد کسانوں کی نقد کمائی جو جانوروں سے ہوجاتی  تھی ،اب اسکاکاروبار کے بند ہوجانے سے دیہی معیشت پر زبردست اثر پڑرہا ہے۔ کاشت کار کی آمدنی کو اس سے بھی بڑ ادھچکا پہنچاہے ۔اسکا ایک زبردست منفی پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ کسانوں کے کھیتوں میں آوارہ جانوروں کی یلغار شروع ہوگئی ہے جس سے اسے زبردست نقصان اٹھانا پڑرہاہے ۔ ان جانوروں کے ذریعہ کھیتوں  پر حملے اب خطرناک شکل اختیار کرنے لگے ہیں ۔ مودی حکومت نے اس دوران ماحولیات سے متعلق بھی جو نئی پالیسی اپنائی  ہے، وہ بھی کسانوں کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہورہی ہے ۔نئے جنگلاتی قانون نے قبائلیوں اور چھوٹے کسانوں کی بربادی کا راستہ کھول دیاہے ۔پانی ، جنگل اور زمین پر اب جنگلوں میں رہنے والے قبائیلیوں اور اسکے اطراف میں آباد چھوٹے کسانوں و غریبوں کا حق نہیں رہا۔اب وہ جنگل سے سوکھی لکڑیاں بھی حاصل کرکے اپنی 2وقت کی روٹی کا بندوبست نہیں کرسکتے ۔ اپنی زمین پر لگائے گئے غیر پھلدار درخت کو بھی اب وہ نہیں کاٹ سکتے ۔ ان درختوں کی لکڑیاں وہ فروخت کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔ ان کے مقابلے ان زمینوں اور جنگلوں پر بڑے بڑے صنعت کاروں کے حقوق زیادہ ہو گئے ہیں۔ وہ اپنے کارخانہ لگانے کیلئے جتنی بھی زمین چاہے لے سکتے ہیں اور جتنے  بھی درخت  چاہیں کاٹ کر اس علاقہ کو سبزہ سے ویران کرسکتے ہیں۔ 2013ء میں تحویل اراضی سے متعلق جوقانون سبھی سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے وضع ہوا تھا اس کو بھی ختم کرنے کیلئے مودی حکومت کئی کوششیں کر چکی ہے لیکن اگر چہ اس میں اسے ناکامی ہاتھ لگی  ہے پھر بھی بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے ذریعہ اس قانون میں اتنے سوراخ کرادئیے ہیں کہ کسانوں کو اپنی زمین تحویل  میں لیے جانے کے بعد بھی انہیں اس کا جائز حق بھی نہیں مل رہا۔ 
 

شیئر: