Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودائزیشن کا دشمن کون ہے؟

عبداللہ الجمیلی ۔ المدینہ
چند روز قبل اپنے ایک رشتہ دار نوجوان سے ملاقات ہوئی تو میں نے اس سے دریافت کیا کہ تم کیا کررہے ہو۔ وہ گزشتہ سال یونیورسٹی سے فارغ ہوا تھا۔ کہنے لگا کہ سرکاری ملازمت کے انتظار کی گھڑیاں گن رہا ہوں۔ مجھے ایک یونیورسٹی سے بی ایڈ کی تلاش ہے۔
میں نے کہا کہ تم اپنے اخراجات کس طرح سے پورے کررہے ہو؟ تمہارے والد کی آمدنی محدود ہے۔ ظاہر ہے تم انہیں پریشان نہیں کروگے۔ میرے نوجوان عزیز نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا”اللہ بھلا کرے سعودائزیشن کا“۔ ایک کمپنی مجھے ماہانہ 2500ریال دیتی ہے اور میں گھر میں لمبی تان کر سوتا رہتا ہوں۔ کمپنی کے عہدیداروں نے مجھے یہ یقین دہانی کرا رکھی ہے کہ انہیں بس نام کے ملازم کی ضرورت ہے۔میرا نام انشورنس میں درج میں ہے۔ کمپنی کے عہدیدار اس قسم کی حرکتیں ملازمتوں کی سعودائزیشن کی پابندی سے بچنے کیلئے کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مقررہ پوائنٹ پورے رہیں تاکہ ان کے خلاف پابندیوں کی تلوار نہ چلے۔
مجھے نوجوان کی یہ بات سن کر بیحد تعجب ہوا۔ مجھے افسوس بھی ہوا کہ آخر میرے وطن کے بہت سارے نوجوان چند سکوں پر اس طرح سے کیونکر قناعت کررہے ہیں۔ وہ سرکاری ملازمت کے چکر میں جو ہوسکتا ہے ملے اور ہوسکتا نہ بھی ملے لاپروائی، کسلمندی اور بیکاری کو کیونکر ترجیح دے رہے ہیں۔ 
ہمارے سامنے 2بحران ہیں۔ ان دونوںکو حل کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ پہلے بحران کا تعلق سعودی نوجوانوں کے یہاں محنت کے رواج سے ہے۔ اس حوالے سے نوجوانوں کو زیادہ اشتیاق انگیز بنانا ہوگا۔ انکے اندر زیادہ بہتر مستقبل کی تلاش اور جستجو کی امنگ پیدا کرنا ہوگی۔ یہ کام ہر منبر و محراب سے آگہی مہم کے ذریعے انجام دیا جاسکے گا۔ ایک اور پہلو ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے نوجوانوں میں نجی اداروں پر اعتماد کا فقدان ہے۔ یہ کمی مختلف قوانین و ضوابط جاری کرکے دور کی جاسکے گی۔ نوجوانوں کو ملازمت کے حوالے سے تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ کم از کم تنخواہ 6ہزارریال مقرر کرانا ہوگی۔ الاﺅنس اور ترغیبات کا سلسلہ بھی لانا ہوگا۔
جہاں تک دوسرے بحران کا تعلق ہے تو وہ حقیقی کم ،فرضی زیادہ ہے۔ اس بحران کے باعث سعودائزیشن کی بہت ساری مخلصانہ کوششیں اندھے کنویں کے حوالے ہوجاتی ہیں۔ جعلی اعدادوشمار اور سعودائزیشن کی قراردادوں پر فرضی عملدرآمد اس کا باعث ہے۔ بڑی بڑی اور درمیانے درجے کی کمپنیاں اس کی ذمہ دار ہیں۔ سخت قوانین اور دنداں شکن سزاﺅں کے ذریعے اس پر قابوپایا جاسکے گا۔ فرضی سعودائزیشن کرنے والے ادارو ںاو رکمپنیو ںکی تشہیر بھی کرنا ہوگی اور ضرورت پڑنے پر انہیں سربمہر بھی کرنا پڑیگا۔ مثبت اقتصادی تبدیلیوں کے ماحول میں ایک اقدام یہ کرنا ہوگا کہ بیرون ملک سے غیر ملکیوں کی درآمد پر مکمل پابندی لگادی جائے۔ میں تارکین کو سلام کرتا ہوں، اس کے باوجود میری سوچ یہ ہے کہ ایسے کام نہیں جنہیں سعودی انجام دے سکتے ہیں وہ کام صرف سعودیوں سے لئے جائیں اورنجی اداروں اور کمپنیوں کو پوری قوت سے اسکا پابند بنایا جائے۔ ڈیٹا بینک قائم کرکے وزارت محنت روزگار پروگرام کی نگرانی کرے۔ علاوہ ازیں جامعات، کالجوں اور ٹیکنالوجی انسٹیٹیوٹ کے ساتھ ربط و ضبط پیدا کرکے نوجوانوں کو خصوصی، تعلیمی و تربیتی کورس کرائے جائیں اور انہیں ایسی ملازمتو ںکے تقاضے پورے کرنے کااہل بنایا جائے جنکی نجی اداروں کو ضرورت ہے۔ ایسا تب ہی حقیقی سعودائزیشن کا ہدف پورا ہوگا۔ مستقبل روشن ہوگا۔
 ٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: