’’اہل خانہ کی مزاحمت کے باوجود قبول اسلام کے فیصلے پر ڈٹا رہا‘‘
شمس الدین۔ جبیل
میں نو مسلم ہوں۔پہلے کسی اور مذہب سے تعلق تھا۔میں اپنے مذہبی کلچر میں مگن تھامگر دل میں کہیں نہ کہیں یہ خیال رہتا تھا کہ آخر سچا مذہب کون سا ہے؟ زندگی گزرتی گئی اور وقت نکلتا گیا۔ زندگی کی مصروفیات میںسے تھوڑاسا وقت نکال کر اِدھراُدھر تھوڑی تحقیق کرتا۔ ایسے میں مجھے اسلام کے بارے میں چند کتابیں مل گئیں۔ میں نے ٹائم پاس کرنے اور دِل کو تسلی دینے کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ شروع کردیا۔ شروع میں تو مجھے ذرا عجیب سا محسوس ہوا لیکن آہستہ آہستہ مجھے اچھا لگنے لگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اورمسلسل مطالعے سے میرے دِل نے آواز دینا شروع کر دی کہ میں جس روشنی کی تلاش میں تھا،وہ یہیں کہیں ہے۔
مزید رہنمائی کے لئے میں نے چند علماء اور مشائخ سے رابطہ کیا تو دل کو مزید تقویت ملی۔آخر کار میں نے کلمہ پڑھ لیا اور اسلام کے دائرے میں داخل ہوگیا۔میری خوشی کی انتہا نہیں تھی۔اپنے اہل خانہ، ماں، باپ، بہن بھائیوں کی مزاحمت کے باوجود میں قبول اسلام کے فیصلے پرڈٹا رہا۔مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں تھی۔میں نے نماز سیکھی، بنیادی ارکان کے بارے میں پڑھا۔مجھے معلوم ہوا کہ نماز با جماعت پڑھنی چاہئے اس لئے میں مسجد میں گیا۔ جب وضو کرکے نماز کے لئے کھڑا ہوا توکیا دیکھتا ہوں کہ میں نے ہاتھ کہیں باندھ رکھے ہیں اور ساتھ والے بھائی نے کہیں اور۔ میں جب رکوع یا سجدے کے لئے جاتا تو میرا طریقہ مختلف ہوتا اور برابر والے نمازی کا مجھ سے مختلف۔ جب نماز ختم ہوتی تو اِدھر اُدھر دیکھا تو نمازیوں کا طریقہ مختلف تھا۔ میں کچھ پریشان ساہو گیا۔بھاگا بھاگا گیااور کتابیں کھولنا شروع کردیںکہ کہیں میں غلط طریقے سے تو نماز نہیں پڑھ رہا۔مجھے اطمینان ہوا کہ کتاب کے مطابق میری نماز صحیح ہے۔
تسلی کے لئے میں نے ایک مسلمان بھائی سے رجوع کیا اور اپنی نماز کا طریقہ اسے دکھایا۔ اس کی بات سن کر مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں جس طریقہ کے مطابق نماز پڑھ رہا ہوں وہ تو صحیح نہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کسی باقاعدہ عالم کی رہنمائی لی جائے۔انہوں نے کچھ کتابیں کھولیںاور میری ساری اسٹڈی اور میں نے عبادت کے جو طریقے سیکھے تھے ، ان سب کو رد کردیا۔ بہت پیار سے مجھے نماز کاطریقہ سکھانا شروع کردیا۔میں عجیب کشمکش میں مبتلا ہو گیا۔ جب میں غیر مسلم تھا تو کبھی کسی نے نہیں کہا کہ یہ کام بدعت ہے یا یہ طریقہ غلط ہے۔ جب میں نے اِسلام پر ریسرچ کی تو دیکھا کہ کتابوں میں تو بہت پیاری تعلیمات توحید ، رِسالت ، حقوق العباد اور زندگی گزارنے کا پرفیکٹ طریقہ بتایاجاتا ہے لیکن جب اپنے دیگر بھائیوں کودیکھتا ہوں تو میں مخمصے کا شکار ہو جاتاہوں۔
اسلام کے بارے میں کتابوں میں بہت کچھ ہے ، بہت پیارے انداز سے سمجھایاگیا ہے مگر ہمارے ملکوں میں ایسے لوگ ملتے ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود یک جان نہیں۔ ان کے نظریات بھی مختلف ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ہمارے ہاں تو یہ عالم ہے کہ ناپ تول میںڈنڈی مارنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دہی، ظلم وزیادتی،یہاں تک کہ والدین اور بہن بھائیوں کی حق تلفی بھی عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔
سچ یہ ہے کہ اسلام ساری دنیا کے لئے رہنمائی اور روشنی والا دین ہے جبکہ ہم میں سے اکثر مسلمانوں کو دیکھیں تو وہ باہمی جھگڑوںمیں الجھے ہوئے اور فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ہم ایسے کیوں ہوگئے کہ ہمیں دین کے دشمنوں کی کوئی فکر نہیں لیکن ہم فرقوں میں یوں بٹے ہیں کہ جو ہمارے فرقے میں نہیں، وہ ہمارا سخت دشمن ہے۔
ہم سب مسلمانوں کو اختلافات کے بھنور سے نکلنا چاہئے ، فرقہ واریت کی دلدل سے باہر آجانا چاہئے ۔ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ تفرقے سے بڑا نقصان امتِ مسلمہ کے لئے کوئی اور نہیں۔