Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ان 3 نعروں کا کیا کریں ؟

***وسعت اللہ خان ***
اپنی 56 سالہ زندگی میں 3 نعرے مسلسل میرا پیچھا کر رہے ہیں اور شاید تا زندگی کرتے رہیں۔
( اول ) یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو 
اس نعرے کے پیچھے غالباً فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کا جذبہ کارفرما ہے۔جب بھی فلسطینیوں پر کوئی نیا ظلم ہوتا ہے تو میرا بھی جی چاہتا ہے کہ ساختہ اسرائیل اشیا کا بائیکاٹ کیا جائے۔مگر یہودی مصنوعات سے کیا مراد ہے یہ آج تک  پلے نہیں پڑا۔نہ ہی کسی بائیکاٹ نواز دوست نے کبھی وہ فہرست فراہم کی جس میں وضاحت ہو کہ کون سی مصنوعات یہودی ہیں۔گر  مراد ان کمپنیوں سے ہے جن کے مالکان یا منتظم یا کارکن یہودی ہیں تو پھر تو گھر میں صرف چادر ، تکیہ اور چارپائی ہی بچے گی کیونکہ فریج ، واشنگ مشین ، فرنیچر ، کپڑے ، بیڈنگ ، پلاسٹک کے برتن ، بچوں کا دودھ ، کارن فلیکس ، بریڈ ، مرتبان ، درسی و غیر درسی کتابیں ، قلم ، پنسل ، عینک ، گھڑی ، جوتا ، کموڈ ، انڈر وئیر ، مشروب ، مسلم شاور ،  طبی آلات ، لیبارٹری کا سامان ، کار ، ٹرک ، بلڈوزر ، لاؤڈ ا سپیکر ، دھرنے کے کام آنے والا کنٹینر ، غرض روزمرہ استعمال کی کسی بھی ہلکی بھاری ، مہنگی سستی شے کا شجرہ نکال لیجئے۔موجد ، کمپنی ، ڈسٹری بیوٹر ، سپلائر ، کنٹریکٹر کوئی نہ کوئی یہودی ضرور ہوگا۔میڈ ان چائنا کے دھوکے میں مت آئیے گا۔چین تو وہ سب سے بڑا عالمی کارخانہ ہے جہاں ہر کمپنی کے لئے اشیا تیار ہو رہی ہیں۔لہذا آئندہ جو شخص یا تنظیم یہودی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چلائے اس سے یہ ضمیمہ بھی طلب فرماویں  کہ کونسی اشیا یہودی نہیں ہیں تاکہ بائیکاٹ موثر ہو۔
ہر کچھ عرصے بعد کسی نہ کسی طرف سے بائیکاٹ کی صدا لگانے سے  اچھا تو یہ ہے کہ آپ خود ایسی معیاری مصنوعات بنائیے کہ بیرونی اشیا پر کم از کم تکیہ ہو۔پر یہ ایک محنت طلب کام ہے اور محنت سے ہمیں کیا کام ؟ 
( دوم )  فحاشی و عریانی و بے راہروی بند کرو۔
یہ نعرہ پچھلے بہتر برس سے پاکستان کے ہر قصبے یا گاؤں کی کسی نہ کسی دیوار پر ضرور لکھا جا رہا  ہے۔اکثر دیواروں پر اس نعرے کے برابر کسی حکیم صاحب کا اشتہار بھی نوشتہِ دیوار ہوتا ہے جس میں بچپن کی غلط کاریوں سے پریشان اور شادی کی دھلیز پر کھڑے خوفزدہ پیلی رنگت کے نوجوانوں کو فوری علاج کے لئے درجِ زیل نمبروں پر فوری رابطے کا دھمکی آمیز مشورہ دیا جاتا ہے۔
فحاشی و عریانی و بے راہروی سے کیا مراد ہے ؟ پچاس کی دہائی میں اس سے مراد اپوا زدہ ، مغرب زدہ فیشن ایبل خواتین کے بلا آستین بازو اور بے پردگی تھی۔ساٹھ کی دہائی میں نائٹ کلبس ، شراب اور بازارِ حسن بھی اس فہرست میں شامل ہوگئے۔ستر کی دہائی میں ٹی وی نشریات کا اضافہ ہوگیا ، اسی کی دہائی میں وی سی آر بند کرو کا نعرہ بھی فحاشی و عریانی کے پھیلاؤ کا حصہ بن گیا۔نوے کی دہائی میں عورت کی حکمرانی شامل ہوگئی اور اکیسویں صدی کے پہلے عشرے میں اس نعرے کا مطلب ہے   ترک ڈرامے اور یو ٹیوب  وغیرہ وغیرہ۔کوئی بتائے گا کہ اب فحاشی و عریانی و بے راہروی کی اگلی تشریح کیا ہو گی ؟ 
( سوم )  ہندوستانی ثقافتی یلغار روکو 
یہ نعرہ بھی ہمارے بچپن کی نشانیوں میں شامل ہے اور ہر چند برس بعد عرق النسا کے درد کی طرح اٹھتا اور تھم جاتا ہے۔ 50 کے عشرے میں پاکستانی فلمی صنعت کے ناکام کاروباریوں نے مقامی فلمی صنعت کے تحفظ کے نام پر بمبئیا فلموں کی درآمد پر پابندی کے لئے ’’ جال تحریک’’  چلائی تاہم ناظرین نے زیادہ گھاس نہیں ڈالی۔65 کی جنگ تک ہندوستانی فلموں سے کوئی نظریاتی و اخلاقی خطرہ نہیں تھا۔مگر جنگ ہوتے ہی فلم بھی دشمن کا ہتھیار ہوگئی اور اکہتر کی شکست کے بعد تو یہ پکی پکی ہندوستانی ثقافتی سازش ہوگئی۔مگر عوام نے اس ہندوستانی ثقافتی سازش کو یوں ناکام بنایا کہ امرتسر ٹی وی اسٹیشن سے نشر ہونے والی فلم پاکیزہ دیکھنے کے لئے اہلِ لاہور نے بلیک میں ٹی وی انٹینے خریدے۔پھر دبئی سے پاکستانی کارکن چھٹیوں پر گھر لوٹنے لگے تو بیگیج میں وی سی آر بھی آنے لگا جسے کسٹم والا ’’ مالی منت سماجت ’’  کے عوض چھوڑ دیتا۔۔ شعلے کا گبر سنگھ جانے کیسے پاکستانی گھروں میں گھس آیا۔بچہ بچہ گلیوں میں چیختا پھرتا ’’ کتنے آدمی تھے ’’ ؟ سرکار دو۔۔۔۔۔۔
جنرل ضیا الحق چونکہ سیاست کو ثقافتی یلغار سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے لہذا انہوں نے نوجوانوں کو فحش سیاسی خیالات سے بچانے کے لئے وڈیو شاپس اور ان میں ہندوستانی فلمی وڈیو کیسٹس رکھنے کی غیر اعلانیہ اجازت دے دی۔تاکہ لوگ آمریت مردہ باد کے بجائے ’’ میرے پاس گاڑی ہے بنگلہ ہے بینک بیلنس ہے تمہارے پاس کیا ہے ؟ میرے پاس ماں ہے  ’’  کرتے پھریں۔ ضیا دور میں فلم تاج محل کی امپورٹ اور نمائش سے کم ازکم یہ تو طے ہوگیا کہ اب  ہندوستانی ثقافتی یلغار کا خطرہ ٹل گیا ہے۔
90 کی دہائی میں جب انٹر نیٹ پیدا ہوا تو فلم بینی بھی وڈیو کیسٹ کی قید سے آزاد ہوگئی۔ جنرل پرویز مشرف نے سوچا  کہ جب عوام ہی حب الوطن نہیں  رہے تو حکومت کیوں گھاٹے میں رہے لہذا ٹیکس کی آمدنی بڑھانے کے لئے  ہندوستانی فلموں کی درآمد کی باقاعدہ اجازت دے دی گئی۔حالانکہ کارگل کی جنگ کا زخم تازہ تازہ تھا مگر فلمی تجارت کو اس سے الگ رکھا گیا۔آج پاکستانی سینما ہاؤسز کی تہتر فیصد آمدنی ہندوستانی فلموں کی نمائش سے جڑی ہے اور حکومت بھی تفریح ٹیکس کی مد میں کروڑوں روپے کماتی ہے۔
تاہم ستمبر2016ئمیں کشمیر میں اوڑی کی  ہندوستانی فوجی چھاؤنی پر حملے کے بعد کچھ  ہندوستانی گروہوں کی جانب سے پاکستان کے فنکارانہ و فلمی بائیکاٹ کے ردِ عمل میں  ہندوستانی فلموں کی پاکستان میں نمائش روک دی گئی اور چند ماہ بعد خودبخود بحال ہو گئی۔بچگانہ لڑائیوں میں ایسے ہی ہوتا ہے۔صبح کو کٹی ، دوپہر کو دوستی شام کو پھر کٹی۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں