حریف ہونے کے باوجود چین اور انڈیا کا ایک دوسرے پر انحصار کیوں؟
حریف ہونے کے باوجود چین اور انڈیا کا ایک دوسرے پر انحصار کیوں؟
جمعرات 30 اکتوبر 2025 17:41
اگست 2025 میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سات سال میں پہلی مرتبہ چین کا دورہ کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا اور چین دنیا کے دو سب سے زیادہ آبادی والے ممالک نہ صرف علاقائی حریف ہیں بلکہ ان کے درمیان تعلقات ہمیشہ ہی پیچیدگی کا شکار رہے ہیں۔
بلومبرگ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اگرچہ انڈیا اور چین نے 1960 کی دہائی میں سرحدی جنگیں بھی لڑیں لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعلقات فروغ پائے۔
سال 2020 میں ہونے والی سرحدی جھڑپیں دونوں طرف کے فوجیوں کی ہلاکت کا باعث بنیں اور اس کے بعد سے تعلقات اگرچہ نچلی سطح پر ہیں، لیکن امریکہ کی تجارتی جنگ نے انڈیا اور چین کو ایک مرتبہ پر تعلقات بہتر کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
رواں سال اگست کے آخر میں انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے سات سال میں پہلی مرتبہ چین کا دورہ کیا جو دراصل اپنے طاقت ور ہمسائے کے ساتھ تعلقات کی از سر نو تشکیل کی خواہش کا ایک واضح عندیہ بھی تھا۔
بعد ازیں اکتوبر کے آخر میں انڈیا اور چین کے درمیان پانچ سال بعد براہ راست پروازوں کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں سیاحت، تعلیم اور کاروباری شعبوں میں دو طرفہ تعلقات مزید فروغ پائیں گے۔
انڈیا اور چین کے درمیان تعلق کی نوعیت ہے کیا؟
دونوں ممالک کے درمیان تنازع کی بنیاد سنہ 1947 میں پڑی جب انڈیا کا بطور ایک خودمختار ریاست وجود عمل میں آیا۔ اگرچہ ابتدا میں دوستانہ تعلق قائم ہوا لیکن 1950 میں چین کی جانب سے تبت کا کنٹرول سنبھالنے کے اقدام نے کشیدگی کو جنم دیا۔
1959 میں چینی حکومت کے خلاف ناکام بغاوت کے بعد انڈیا نے بدھ مت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کو پناہ دینے کا فیصلہ کیا جو دونوں ممالک کے درمیان پہلے بڑے تنازع کی وجہ بنا۔
تین سال بعد، دونوں فریقوں نے متنازع ہمالیائی سرحد پر ایک مختصر جنگ لڑی جو چین نے فیصلہ کن طور پر جیت لی لیکن مغرب میں اکسائی چن اور مشرق میں اروناچل پردیش کے دو اہم علاقوں پر تنازع حل نہ ہو سکا۔
سرد جنگ کے دوران بھی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے اور اس دوران انڈیا، چین کے حریف سوویت یونین کے قریب ہوتا گیا۔
انڈیا نے 1959 میں دلائی لامہ کو پناہ دے کر چین کے ساتھ پہلا بڑا تنازع شروع کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
اگرچہ چین حالیہ دور کی ایک بڑی معاشی اور عسکری طاقت بن کر ابھرا ہے لیکن بیجنگ کی خارجہ پالیسی اور بالخصوص انڈیا کے پڑوسی ملک پاکستان میں بیلٹ اینڈ روڈ انفراسٹرکچر پروگرام کے تحت ترقیاتی منصوبوں نے نیو دہلی میں مزید شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔
رواں سال پاکستان اور انڈیا کے درمیان ہونے والی لڑائی میں اسلام آباد نے چینی ساختہ J-10C طیارے استعمال کرتے ہوئے اپنے حریف ملک کے پانچ لڑاکا طیارے مار گرائے تھے۔
اس موقع پر انڈیا نے دعویٰ کیا کہ چین نے پاکستان کو فضائی دفاع اور سیٹلائٹ سپورٹ بھی فراہم کی۔
ان تنازعات کے باوجود انڈیا اور چین کے درمیان اہم اقتصادی تعلقات برقرار ہیں۔ چین امریکہ کے بعد انڈیا کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں ممالک نے گزشتہ سال 127 ارب ڈالر کی تجارت کی جس میں سے چینی برآمدات کا حجم 109 ارب ڈالر تھا۔
انڈیا کس طرح سے چین پر انحصار کرتا ہے؟
انڈیا کے صنعتی عزائم دراصل چینی ٹیکنالوجی تک رسائی پر منحصر ہیں۔ انڈیا نے 2024 میں چین سے تقریباً 48 ارب ڈالر مالیت کے الیکٹرانکس اور برقی آلات درآمد کیے جس سے واضح ہے کہ انڈیا سمارٹ فونز سے لے کر ٹیلی کام نیٹ ورکس تک الیکٹرانک مصنوعات کی تیاری کے لیے کس حد تک چین پر انحصار کرتا ہے۔
اسی طرح سے انڈیا کی دوا سازی کی صنعت زیادہ تر اجزا چین سے درآمد کرتی ہے۔
برقی گاڑیوں، قابل تجدید توانائی اور کنزیومر الیکٹرانکس کے شعبوں میں اپنے اہداف کو پورا کرنے کے لیے نایاب ارتھ میگنیٹ کی درآمد کے لیے انڈیا کا چین پر بہت زیادہ انحصار ہے۔
چین کی جانب سے نایاب ارتھ میگنیٹ کی برآمدات پر پابندیوں سے دیگر ممالک کے مقابلے میں انڈین آٹو سیکٹر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان شعبوں میں جہاں مقامی سطح پر مہارت کا فقدان ہے اور متبادل ذرائع کی کمی ہے، ایسے میں انڈیا کی بڑی صنعتوں کے مالکان خاموشی سے چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔
انڈیا اور چین نے سرحدی کشیدگی کے بعد بھی معاشی تعلق برقرار رکھا۔ فوٹو: اے ایف پی
چین کو کیسے انڈیا کی ضرورت ہے؟
دوسری جانب چین میں جہاں ترقی کی رفتار سست روی کا شکار ہے، ایسے میں بیجنگ انڈیا کی مارکیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے۔
سال 2024 میں انڈیا نے تقریباً 156 ملین سمارٹ فونز درآمد اور فروخت کیے جو چینی موبائل کمپنیوں جیسے شیامی، ویوو اور اوپو کے لیے انتہائی خوش آئند ہے۔
اسی طرح سے انڈیا دنیا کی تیسری سب سے بڑی کار مارکیٹ ہے جہاں 2024 میں 4.3 ملین مسافر گاڑیاں فروخت ہوئیں۔
چینی کار ساز کمپنیوں بالخصوص بی وائے ڈی نے 40 فیصد انڈین آٹو مارکیٹ پر قبضہ کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے۔
جس طرح سے انڈین کمپنیوں کے لیے چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری فائدہ مند ہے اسی طرح سے چینی کمپنیوں کو بھی اپنے انڈین ہم منصبوں کے ساتھ تعاون میں فائدہ نظر آتا ہے۔