Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’دل شاد ہے ، نم آنکھ، لبو ں پر ہے تبسم::محفل یہ سجائی گئی ابصار کی خاطر‘‘

اردونیوز کے نیوز ایڈیٹر ابصار سید کے کراچی بیورو آفس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے روانگی کے موقع پر امیر محمد خان کے کاشانے پرپاکستان جرنلسٹ فورم ، جدہ کی’’ شب وداع‘‘
 
شہزاد اعظم  ۔  جدہ
    ’’کسبِ کمال‘‘ ایک منزل ہے ،اور جو ہستی متمکن ہووہاں وہ ہوجاتی ہے ’’عزیزِ جہاں‘‘۔ اس ہستی سے اس کے’’ کسب‘‘ یعنی ’’فن‘‘ کے بارے میں جب بھی سوال کیاجاتا ہے کہ آپ کویہ شوق کب سے ہوا تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ مجھے بچپن سے ہی اس کا شوق تھا۔ اردونیوز کے نیوز ایڈیٹر ابصار سید بھی ایسے ہی صحافی ہیں جومنزل کمال کے مکیں ہیں۔ان سے جب بھی دریافت کیاجاتا ہے کہ صحافت کا شوق آپ کو کب سے ہوا تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ ’’مرا مزاج لڑکپن سے ہی صحافیانہ تھا ‘‘۔
    ہم دنیا میں آنکھ کھولنے کے بعد سے اپنے چاروں اکناف ایک منظر تواتر کے ساتھ دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ہر شخص نام اور مقام کی طلب میں دوڑرہا ہے مگر بعض خوش بخت ایسے بھی ہوتے ہیں کہ نام ، مقام اور شہرت دوام ان کے تعاقب میں رہتے ہیں۔ ابصار سید کو بھی قسام ازل نے ایسی ہی قسمت عطا فرمائی کہ انہیں بِن مانگے کبھی انچارج یا نیوز ایڈیٹر سے کم کوئی ذمہ داری نہیں سونپی گئی۔ اتفاق یہ دیکھئے کہ جزیرہ نمائے عرب کے ’’اولیں مرقعِ ریختہ‘‘، ’’اردونیوز‘‘کی بنیادرکھنے کے بعد1994ء میںکراچی میں بیورو آفس کی سربراہی کی ذمہ داری ابصار صاحب کو سونپی گئی جسے پیشہ ورانہ انداز میں شاہراہِ صحافت پر گامزن کرنے کے بعد انہیں جدہ بلا لیا گیا اور موصوف نے 6 اکتوبر،1994ء کواردو نیوز میں افسرانہ خدمات کی انجام دہی کا آغاز کر دیا۔یوں 2روز قبل 6اکتوبر 2018ء کو انہیں اردونیوز ، جدہ میں بحیثیت نیوز ایڈیٹر24برس مکمل کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر کراچی میں از سر نو بیوروآفس کے بااختیار نگراں کی حیثیت سے قیام و انصرام کی ذمہ داریاں اداکرنے کی خاطروطن بھیجا جا رہا ہے ۔آج یہ بات سمجھ میں آگئی کہ شاعر نے ایسی ہی صورتحال سے متاثر ہو کرکہا ہوگا کہ:
’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو‘‘
    درج بالا سارا منظر نامہ اس امر کا متقاضی تھا کہ ابصار سید کو طمطراق کے ساتھ الوداع کہا جاتا چنانچہ جدہ میں تجزیہ کار کی حد تک تجربہ کار، نابغہ روز گار ، کہنہ مشق قابل رشک صاحبانِ قلم کی اکثریت پر مشتمل صحافیانِ پاکستان کے ترجماں’’پاکستان جرنلسٹ فورم ‘‘ کے روح رواں اورسچے نگراں، امیر محمد خاںکے مسکن پر شب وداع کا اہتمام کیا گیا۔ ’’محبت کے گنہگاروں‘‘ میں شامل ہونے کے ناتے مدعو ہم بھی تھے چنانچہ ’’اخباریات‘‘ سے فراغت کے بعد ہم ’’نوشۂ امروز، ابصار سید‘‘ کے ہمراہ ’’شہ بالوں‘‘ کی طرح گاڑی میں سوار ہو کر محترم امیر کے دولت کدے پر پہنچ گئے۔ دروازے پر الیکٹرک بیل بجاکر ’’برقیاتی دستک‘‘دی۔امیرخان صاحب نے  بآوازِ بلندسلام کے ساتھ دروازہ کھولا، اندر بلایا، مہمان خانے کی چلمنیں سرکیں، ہم بے کفش قدموں سے زیرِ پاقالین کی دبازت کو محسوس کرتے ہوئے داخل ہوئے جہاں درجنوں شخصیات استقبالی انداز میں ایستادہ ہوئیں، تمام چہرے چمک رہے تھے ، سانس مہک رہے تھے، شرکائے بزم چہک رہے تھے۔ معانقوں کے بعد تمام ہستیاں نشستوں پر براجمان ہوگئیں۔خوبصورت بزم تھی ۔ سامنے تپائی پر منہ میٹھا کرنے کے لئے چاکلیٹ، نمکین کرنے کے لئے نمک والا پستہ، کسیلا کرنے کے لئے مونگ پھلی اور دل بہلانے کے لئے مصنوعی سیب اور انگور موجود تھے۔ یہاں سبھی کچھ تھا ،بزم خالصتاً مردانہ تھی اس لئے تصویر کائنات کی بے رنگی کا احساس بہر حال غالب رہا۔غرفہ طعام سے ایئرکنڈیشنر کی خنک ہوا کے ساتھ وقفے وقفے سے دراندازی کرنے والے مشتہی جھونکے قوت شامہ کو جھنجوڑ رہے تھے ۔ اسی دوران میزبان امیر محمد خان نے تقریب کا آغاز کیا اورمہمان خصوصی، پاکستان قونصلیٹ کے پریس اتاشی محترم ارشد منیر کومہمان خصوصی کی مسند سنبھالنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد انہوں نے بزم کے انعقاد کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ اردونیوز کے نیوز ایڈیٹر جناب ابصار سید، اردونیوز کے لئے اک نئی جہت کا آغاز کرنے کے لئے کراچی جا رہے ہیں جہاں وہ بیورو آفس کا اہتمام کرکے وہاں سے اردونیوز کے صفحات تیار کر کے ارسال کریں گے۔ ہم نے انہیں ان نئی ذمہ داریوں پر مبارکباد پیش کرنے ان کو وطن واپس جانے پرڈھیروں دعائیں دینے کے لئے یہ’’ شب وداع‘‘سجائی ہے ۔اس کے بعد انہوں نے شرکائے بزم سے ابصار سید کے بارے میں اپنے احساسات و خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی۔سب نے ہی ابصار صاحب کی پیشہ ورانہ صلاحیت، محنت اور شخصیت کی تعریف کی۔ محمد لئیق اللہ خان نے کہا کہ میں نے ابصار کو نہ صرف ایک اچھا صحافی بلکہ اچھا انسان اور مسلمان پایا۔ان میں دوسرے کو معاف کرنے کی خوبی موجود ہے۔وہ دوسروں سے مل کر رہنے کے عادی ہیں۔اسد اکرم نے کہا کہ میں نے بحیثیت صحافی انہیں قابل تعریف شخصیت کا حامل پایا۔مسرت خلیل نے کہا کہ میرا ساتھ بہت قدیم ہے ، انہوں نے ہمیشہ بھائیوں کی طرح سلوک روا رکھا۔شاہد نعیم نے کہا کہ ابصار صاحب کے اردونیوز میں آنے سے قبل پاکستان میں بھی ان سے اخبار کے حوالے سے روابط تھے۔ یوں میں کم از کم 30برس سے ان کی صحافیانہ عنایات سے مستفید ہو رہا ہوں۔ رام نرائن نے کہا کہ میں نے ابصار میں ایک خاص بات دیکھی ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے، وہ یہ کہ ابصار سید نہ صرف خود صحافت کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو سکھاتے ہیں۔وہ ایک حقیقی صحافی ہیں۔جمیل راٹھور نے رام نرائن کے خیالات کی تصدیق کی ۔ انہوں نے کہا کہ ابصار بھائی میں خبر شناسی کا وصف پا یاجاتا ہے جو ہر صحافی کی قسمت میں نہیں ہوتا۔
    امیر محمد خان نے کہا کہ رام نرائن نے جو صحافت سکھانے والی بات کہی ہے، وہ صد فیصد درست ہے اور آج کل ہمارے ہاں ’’نوآموز صحافیوں‘‘ نے جس طرح صحافتی اقدار کا جنازہ نکال رکھا ہے ، ایسے میں پاکستان میں ابصار سید جیسے صحافیوں کی اشد ضرورت ہے۔
    امیر محمد خان کے بعد ’’شمع اظہار‘‘ہمارے سامنے آئی۔ہم نے امیر خان کے بیان میں ہی اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں آج کل لوگ کس قسم کی صحافت کر رہے ہیں اور ہم نے کس قسم کے صحافتی حالات جھیلے ہیں، اس کیلئے صرف ایک مثال پیش کی جا رہی ہے ۔ اس کے بعد آپ ہمیں مظلوم قرار دینے میں ایک لمحہ تاخیر نہیں کریں گے۔ ہوا یوں کہ ہم نے اخبار میں ایک سرخی شائع کی جو کچھ اس نوعیت کی تھی کہ’’جب سارا کام بیوی نے ہی کرنا ہے تو نوکرانی کی کیا ضرورت؟‘‘
    اگلے روز اخبار میں یہ سرخی پڑھ کرہمارے افسر، مایہ ناز صحافی سیخ پا ہوگئے۔انہوں نے ابصار سید سے دریافت کیا کہ یہ سرخی کس نے لکھی ۔ انہوں نے ہمارا نام بتا دیا۔کچھ ہی دیر میں ہم نے دفتر میں قدم رکھااور فوراً ہی ہمیں شیشے کے کمرے میں بلا لیا گیا۔موصوف نے اخبار ہمارے سامنے رکھا کہ یہ سرخی آپ نے لکھی ہے؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ ہمارے ہاں کہنے پر انہوں نے بائیں ہتھیلی سے اپنی پیشانی پیٹ ڈالی اور گویا ہوئے کہ یہ ہے آپکی اردو؟ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے کہ ہمارے اخبار میں ایسی بے ڈھنگی شہ سرخیاں شائع ہوتی ہیں۔ ہم نے سرخی کو غور سے پڑھا، اس میں زیر زبر سب کچھ درست تھے۔ ہم نے کہا ’’سر! اس میں غلطی کیا ہے ؟ ہمارے اس جملے نے ان کو یوں برانگیختہ کر دیا جیسے جلتی پر تیل۔ اس مرتبہ انہوں نے ماتھے کوہتھیلی سے ’’تھپڑانے ‘‘کی بجائے ’’ہا ہا ‘‘ کہتے ہوئے منہ پر یوں ہاتھ رکھ لیا جیسے جماہی روکنے کے لئے رکھتے ہیں اور گویا ہوئے کہ وہی بات ہے، تمہاری ریختہ دانی پر تمہاری جائے پیدائش کا اثر حاوی ہے ۔وہ تفاوت جو لکھنوی اردو اور دہلی کی زباندانی میں پایاجاتا ہے ، اسی تفاوت کا شکار تم بھی ہو، بہر حال مجھے تم سے کم از کم یہ امید نہیں تھی۔ ہم نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ محترم! غلطی کی نشاندہی کر دیں ، آئندہ نہیں ہوگی، ان شاء اللہ۔ انہوں نے انتہائی بوجھل دل سے کڑوا منہ بنا کر جواب دیا :سرخی یوں ہونی چاہئے تھی کہ ’’جب سارا کام بیوی کو ہی کرنا ہے تو نوکرانی کی کیا ضرورت؟‘‘اس ’’صحافتی لترول‘‘کے بعد سے ہمارے  اوسان ہمیشہ کے لئے ٹھکانے آگئے ۔
    آج صورتحال یہ ہے کہ بڑے بڑے نامی گرامی صحافی ’’بہ‘‘ اور ’’بھ‘‘کا صوتی آہنگ ہی بھول چکے ہیں۔ وہ ٹی وی پر گفتگو کے دوران ’’بھارت ‘‘ کو بھی ’’بہارت‘‘ کہتے ہیں۔ اسی طرح خبرنامے میں ’’آگ بگُولہ‘‘ کو بار ہا پڑھا گیا اور ہر مرتبہ ’’ آگ با گولہ‘‘ کہا گیا اور تصور یہ تھا کہ توپ کے گولے کو آگ لگائی جاتی ہے تو وہ پھٹتا ہے ، اسی طرح غصے میں انسان کا حشر ایسا ہوتا ہے جیسے گولے کو آگ لگائی گئی ہو۔ یقینا لفظ، تلفظ، بیان و زبان کی ایسی’’ قحط سالی ‘‘میں ابصار سید کی موجودگی بڑی ’’تبدیلی‘‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ہم نے اس بزمِ اظہار میں اس امر کا اقرارکیا کہ ہم نے جن سے سیکھے صحافیانہ اطوار ، ان کا نام ہے ابصار۔
    مہمان خصوصی ، پاکستانی قونصلیٹ جنرل ، جدہ کے پریس اتاشی محترم ارشد منیرنے ابصار صاحب کی صحافیانہ خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ذمہ دار اور تعاون کرنے والی شخصیت قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ ابصارمیں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی بھی اچھے صحافی میں ہونی چاہئیں۔ میں ان کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔
    آخر میں ابصار سید نے اپنے بارے میں کہا کہ میں نے72ء میں صحافت کا آغاز کیا۔ مختلف اخبارات میں کام کیا اور حیرت اس بات پر ہے کہ جہاں گیا وہاں نیوز ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ اس میں بھی کوئی دورائے نہیں کہ میں بچپن سے ہی صحافی بننا چاہتا تھا۔ میرے والد ماجد نے بھی مجھے اسی نہج پر تربیت دی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے صحافت کے سوا کوئی کام نہیں آتا۔ آج بھی اگر میں دیوار میں میخ گاڑنے لگوں تو ہتھوڑی سے انگلی زخمی کر لیتا ہوں، میخ نہیں گاڑ سکتا۔سچ یہ ہے کہ اگرمیں صحافی نہ ہوتا تو بھی صحافی ہی ہوتا۔ابصار سید نے اپنی نو عمری کے دور کے واقعات بھی سنائے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ دوربے حد سادہ تھا۔ لوگ بھی سادہ تھے۔ اتنے سادہ کہ سادگی کی مہم چلانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔
    تقریب کے اختتام پر ابصار سید کو پاکستان جرنلسٹ فورم کی جانب سے یادگاری شیلڈ اور تحائف پیش کئے گئے۔ یوں جدہ میں مقیم باشندگان ِاردونے ابصار سید کی 24سالہ رفاقت کو سند ِمحبت عطا کر دی۔اس ’’شبِ وداع‘‘ کے احساسات کو منظوم کیا توقرطاس پر یہ تحریر ابھری:
سینے میں یہ دل ہے کسی دلدار کی خاطر
ہم بزم سجاتے نہیں اغیار کی خاطر
کیا خوب نبھائی ہے صحافت سے محبت
پردیس کو اپنا لیا اخبار کی خاطر
دیرینہ محبت کے اسیرانِ صحافت
آئے ہیں یہاں جرأتِ اظہار کی خاطر
دل شاد ہے ، نم آنکھ، لبو ں پر ہے تبسم
محفل یہ سجائی گئی ابصار کی خاطر
مزید پڑھیں:- - - - -یواے ای ایکسچینج کا ڈیم فنڈ کے لئے اہم اقدام

 

شیئر: