Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام کا اعتماد، حکومت کی اصل طاقت

***تنویر انجم***
حکمران قابل اعتبار اور قابل بھروسا ہوں تو قومیں اپنے ملک اور رہنماؤں کے لیے مصائب برداشت کرنا تو معمولی بات، جاں نچھاور کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں اور ایسی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے کہ حکمرانوں نے جب بھی عوام کو اعتماد میں لے کر اقدامات کیے تو انہیں اپنی قوم ہر عمل میں شانہ بشانہ نظر آئی۔ پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت کو چند روز بعد 3 ماہ مکمل ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے سیاسی مبصرین، تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن سمیت تمام ناقدین کی رائے اور اختلافات ایک جانب رکھ کر عمران خان کی صرف ایک بات کو پیش نظر رکھا جائے تو مخالفین بھی جھٹلا نہیں سکیں گے کہ وزیر اعظم اپنا منصب سنبھالنے کے بعد سے لے کر ابھی تک ہر طرح کی ملکی صورتحال سے نہ صرف اپنی کابینہ اور اپوزیشن کو آگاہ کررہے ہیں بلکہ عوام سے براہ راست خطاب اور بیانات کے ذریعے قوم کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ حکومتوں کو دیکھا جائے تو ماضی قریب میں ایسی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی کہ حکمرانوں نے عوام سے سچ بول کر یا انہیں ملک کو درپیش مسائل کی حقیقت بتا کر مدد چاہی ہو۔
گزشتہ حکومتوں سے متعلق گہرے ماضی میں جائے بغیر صرف سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت سے دیکھا جائے تو ان کے بعد کی حکومت نے الزامات لگائے کہ انہوں نے دانستہ پٹرول اور ڈالر کو بڑھنے نہیں دیا جس کا خمیازہ اگلی حکومت اور عوام کو بھگتنا پڑا۔ ایسے ہی الزامات پیپلز پارٹی کے دور حکومت پر ن لیگ نے لگائے اور اب پی ٹی آئی کی حکومت ن لیگ کے حوالے سے بھی یہی حقائق منظر عام پر لا رہی ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ حکمران اپنے اور اپنے حلیفوں کے مفادات کی خاطر ہمیشہ عوام سے حقائق نہ صرف چھپاتے رہے بلکہ ان کے اقدامات اور فیصلوں سے پاکستانی قوم کی آیندہ کی کئی نسلیں مقروض ہو چکی ہیں ۔
اس بات سے انکار نہیں کہ موجودہ وزیر اعظم کو عہدے کا تجربہ نہیں تاہم یہ بات بہرحال اہم ہے کہ وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد وہ ملک کی خراب معاشی صورتحال سے نہ صرف قوم کو آگاہ کررہے ہیں بلکہ حقائق سامنے لاکر عوام، سرمایہ کاروں اور دوست ممالک سے مدد طلب کرکے ملک کو درپیش معاشی مسائل سے نجات دلانے کی کوششوں میں ہیں۔ اس بات سے بھی کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ ملکی صورتحال کا جو بھی ذمے دار ہو، کم از کم موجودہ حکومت تو نہیں کیونکہ یہ پی ٹی آئی کا پہلا دور حکمرانی ہے، تاہم سابقہ حکومتوں کے کیے دھرے کو سدھارنا اور ملکی معیشت کو ترقی کی پٹڑی پر لانے میں یقینا وقت لگے گا۔
ایک جانب جہاں تجربہ کا رسیاستدان اور سابق حکمران حکومت کی موجودہ پالیسیوں خاص طور پر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے معاملے پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں وہیں گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر نے علیحدہ مواقع پر ایک اہم بات قوم کے سامنے ظاہر کردی کہ اگر عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کے حصول کے لیے رابطہ نہ کیا جاتا تو ’’ملک بہت جلد دیوالیہ ہو چکا ہوتا‘‘۔ وزیرا عظم نے صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات میں انکشاف کیا کہ پچھلی حکومتوں نے ملکی قرضہ 36 ٹریلین تک پہنچا دیا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ اگر ہم آئندہ دو ماہ میں آئی ایم ایف سے قرض نہ لیتے تو ملک کا دیوالیہ نکل جاتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں، جن میں اہم سعودی عرب اور چین کی جانب سے مثبت پیغامات بھی شامل ہیں تاہم وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے حالیہ قرضے کا حصول ان کا آخری آپشن ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہمارے اقدامات فی الحال عوام پر بھاری محسوس ہو سکتے ہیں مگر وقت ثابت کرے گا کہ یہ سب ملکی استحکام کے لیے ضروری تھا اور اس کے نتایج اور ریلیف سے قوم ہی کو فائدہ ملے گا۔
دوسری جانب وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی اسی بات کا اعادہ کیا کہ ان کی حکومت پہلی اور آخری مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ کررہی ہے۔ ساتھ ہی وزیر خزانہ نے ایک اچھی خبر بھی سنائی کہ آئندہ چند ماہ میں ڈالر کی قدر میں تقریباً 27 فیصد تک کمی ہو جائیگی۔ کراچی میں اسٹاک مارکیٹ کا دورہ اور وہاںسرمایہ کاروں سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ڈھائی ارب ڈالر سے تجاوز کرتے ہوئے 18 ارب ڈالر ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے ملک تیزی سے دیوالیہ ہو رہا تھا۔
فی الحال پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس 3 اہم اور واضح ذرائع دکھائی دے رہے ہیں جن کی مدد سے ملک نہ صرف معاشی ایمرجنسی سے نکل سکتا ہے بلکہ عین ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے بھی آزاد ہو سکے۔ ان 3 ذرائع میں سب سے اہم سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، چین اور ملائیشیا ہیںاور تازہ اطلاعات کے مطابق تینوں برادر اور دوست ممالک کی جانب سے حکومت کو مدد کے لیے مثبت اشارے ملے ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم عمران خان 23 اکتوبر کو سعودی عرب اور بعد ازاں 29 اکتوبر کو ملائیشیا کا دورہ کریں گے۔
گزشتہ 2 ماہ کے دوران بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجے گئے زرمبادلہ سے بھی ملکی معیشت کو سہارا ملا ہے اور حکومت نے اس حوالے سے ماضی کی حکومتوں کے برعکس مثبت اعداد شمار بھی جاری کردئیے ہیں۔معاشی بحران پر قابو کے پورے پس منظر میں دوسری رائے یہ ہے کہ حکومت کے قیام کو 3 ماہ مکمل ہو چکے ہیں، اس حوالے سے پی ٹی آئی حکومت نے بروقت اقدامات کرنے میں کچھ تاخیر کردی ہے جس کی وجہ سے محسوس ہوتا ہے کہ معاشی صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے اور ہر بڑھتے دن کے ساتھ حکومتی پریشانی اور مخالفین کی تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک جانب مہنگائی ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تو دوسری جانب ڈالر کی اُڑان اپنی بلندیوں پر ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ دنوں ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کو کسی حد تک نقصان ہوا ہے جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشستوں پر بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
موسم سرما کے آغاز ہی سے ہمیشہ کی طرح گیس کا بحران پیدا ہو جائیگا، اس حوالے سے اگر حکومت نے بروقت مثبت اقدامات نہ کیے تو اسے عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں سب سے قیمتی چیز عوامی اعتماد ہے۔ یا تو حکومت اسے یکسر کھو دے گی یا پھر اسے حاصل کرکے مستقبل میں اپنے لیے راہ ہموار کریگی۔ا ب فیصلہ کپتان اور اس کی ٹیم پر ہے کہ وہ کتنی دیانتداری اور سمجھ بوجھ کے ساتھ فیصلے کرکے اپنے دعوؤں کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔
 
 

شیئر: