Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جسم میں 360 جوڑ ، ہر جوڑ پر صدقہ لازم

 انسان ہر جوڑ کا محتاج ہے جس پر اسے شکر ادا کرنا چاہئے اور شکر کا طریقہ یہ بتایا گیا کہ ہر ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہے ، وہ ادا کیا جائے
* * *  *مولانا محمد رفیع عثمانی* *  *

    اللہ کے رسول کے ارشادمبارک کا مفہوم ہے ’’انسان کے بدن میں جتنے جوڑہیں، ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہے جو روزانہ اس پر لازم ہوتا ہے‘‘ صحیح مسلم کی روایت میں ان جوڑوں کی تعداد بھی ہے کہ ’’انسان کے بدن میں گنتی کے قابل 360جوڑ ہیں اور ہر جوڑ کے مقابلے میں صدقہ کرنا ضروری ہے، دوآدمیوں کے درمیان عدل کے ساتھ فیصلہ کرنا صدقہ ہے، ایک کمزور اور ضعیف آدمی کو اس کی سواری پر بٹھانے میں مدد دینا اور اس کا سامان اٹھاکر اسے تھمانا صدقہ ہے،اچھی بات صدقہ ہے،نماز کیلئے چلنا اور ہر اس کیلئے ایک ایک قدم اٹھانا صدقہ ہے اورتکلیف دینے والی چیز کوراستے سے ہٹانا بھی صدقہ ہے‘‘
    یہ جوڑ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم نعمت ہیں جن کے ذریعہ انسان اٹھتا ہے، بیٹھتا ہے اور اپنے سارے کام انجام دیتا ہے۔اگر کسی ایک جوڑ میں بھی تکلیف ہوجائے تو سارا جسم تکلیف سے بے چین ہوجاتا ہے اور بعض جوڑ تو ایسے ہیں اگر وہ کام کرنا چھوڑدیں تو سارا جسم معطل ہوکر رہ جاتاہے۔مثال کے طور پر اگر کسی کی ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف ہوجائے تو اس کا اٹھنا ، بیٹھنا اور چلنا سخت اذیت کا باعث ہوتا ہے۔غرض انسان ہر جوڑ کا محتاج ہے جس پر اسے شکر ادا کرنا چاہئے اور شکر کا طریقہ یہ بتایا گیا کہ ہر ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہے ، وہ ادا کیا جائے۔
    اگر دیکھا جائے تو ہر انسان پر روزانہ 360صدقے کرنا ضروری ہیں جو ایک غریب آدمی کیلئے بہت مشکل ہے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جو نعمتیں ہمیں دے رکھی ہیں ان کے سامنے یہ صدقے کچھ بھی نہیں کیونکہ بالفرض اگر ہر جوڑ کے بدلے ایک روپیہ صدقہ کیا جائے تو اس کی طرح 360روپے بنتے ہیں لیکن اگر کسی گردن میں یا کسی ایسے عضو میںتکلیف ہوجائے جس سے چلنا پھرنا دشوار ہوجائے تو وہ شخص ہزاروں لاکھوں بھی خرچ کرنے کو تیار ہوجاتا ہے تاکہ اس تکلیف سے نجات حاصل کرے۔ اس کے باوجود قربان جایئے اس ذات پر جس نے ان صدقوں کی ادائیگی اتنی آسان فرمادی کہ غریب سے غریب آدمی بھی تھوڑی سی توجہ سے ان صدقوں کی ادائیگی کرسکتا ہے اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے بہت سے ایسے کام بتلادیئے جن کو کرنے سے نہ صرف ان صدقوں کی ادائیگی بھی ہوجاتی ہے بلکہ یہ انسان کے نامۂ اعمال کو بھی ثواب سے بھردیتے ہیں۔ ان کاموں کا کرنا بہت آسان ہے مگر صرف تھوڑے سے دھیان کی ضرورت ہے۔رسول اکرم نے اسی حدیث میں کچھ ایسے نیک کاموں کی نشاندہی بھی مثال کے طور پر فرمادی ہے۔
    چنانچہ اسی حدیث میں ارشاد ہے کہ ’’اگر کوئی شخص دو آمیوں کے درمیان انصاف کردے تو یہ بھی صدقہ ہے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ اگر دومسلمان بھائیوں میں کسی قسم کا کوئی اختلاف ہوجائے اور کوئی تیسرا شخص ان دنوں کے درمیان انصاف کردے تو انصاف کرنے والے کو صدقے کا ثواب ملتا ہے۔
    اسی حدیث میں آگے ارشاد ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی سواری پر سامان لادنا چاہتا ہے مثلاً اس کے پاس گھوڑا ہے یا سائیکل ہے یا موٹرسائیکل یا کار وغیرہ ہے اور اس پر وہ کچھ بھاری سامان لادنا چاہتا ہے مگر بوجھ کی وجہ سے تنہا اٹھانا دشوار ہے تو ایسے آدمی کا آگے بڑھ کر سامان اٹھوا دینا اور اس کی مدد کردینا بھی بہت ثواب کا کام ہے اور یہ بھی صدقہ ہے۔ اسی حدیث میں آپ نے فرمایا’’کوئی اچھا جملہ بول دینا یا اچھا کلمہ کہہ دینا بھی صدقہ ہے ۔ دیکھا جائے تو اس میں زبان کے سارے نیک اعمال داخل ہیں مثلا ًاللہ تعالیٰ کا ذکر چاہے وہ سبحان اللہ کہہ کر ہو یا الحمد للہ کہہ کر یا تلاوت قرآن کریم یا درود شریف ہو ۔اسی طرح کوئی ایسا کلمہ یا جملہ زبان سے کہہ دینا جس سے دوسرے کو کوئی فائدہ یا سہولت یاخوشی یا تسلی ہوجائے ، اس حدیث کی رو سے وہ بھی صدقہ ہے۔
    اگر کوئی شخص کہیں جانا چاہتا ہے لیکن اپنی منزل کا صحیح راستہ نہیںجانتا تو اس کو صحیح راستہ بتلادینا بھی اس حدیث کی رو سے صدقہ ہے اور یہ بھی بہت ثواب کا کام ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کسی دینی مسئلے سے ناواقف ہے اور وہ نہیں جانتا کہ اس میں شریعت کا حکم کیا ہے تو ایسے شخص کو دینی مسئلہ بتادینا بھی صدقہ ہے جو باعث اجر وثواب ہے۔ اسی حدیث میں آپ نے آگے ارشاد فرمایا کہ آدمی نماز کو جانے کے لئے جو قدم بھی اٹھاتا ہے تو اس کا ہر ہر قدم صدقہ ہے چنانچہ جماعت سے نماز پڑھنے کیلئے جب بندہ مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کے ہر قدم پر ایک صدقے کا ثواب ہے۔اسی حدیث میں آپ نے آگے ارشاد فرمایا’’تکلیف دینے والی چیز کو راستے سے ہٹادینا بھی صدقہ ہے‘‘ اگر راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز مثلا ًبڑا پتھر یا کانٹا یا کوئی پھسلنے والی چیز یا کوئی گندی چیز ہے توایسی چیز کو راستے سے ہٹا دینا اس نیت سے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو تکلیف پہنچے گی یہ بھی صدقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں حضور اکرم  کا ارشاد ہے کہ ’’ایمان کے 77شعبے ہیں جن میں سے ادنیٰ یہ ہے کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹادیا جائے‘‘
    ایک اور حدیث مبارک میں آتا ہے کہ حضور نے فرمایا’’بہت اچھا صدقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی دودھ والی بکری یا اونٹنی کسی کو اس طرح دے دے کہ وہ اس کا دودھ پیتا رہے اور جب دودھ نہ رہے تو جانورلوٹادے‘‘ خاص یہ کہ کوئی شخص اپنا دودھ دینے والا جانور مثلاً بکری ، گائے بھینس وغیرہ کسی شخص کو اس لئے دے کہ وہ اس کا دودھ نکال کر صبح وشام پیتا رہے یا دوسروں کو پلاتا رہے اور جانور دودھ دینا بند کردے تو مالک کو واپس کردے تو جتنی مرتبہ وہ شخص اس کے جانور سے دودھ پیئے گا اس جانور دینے والے شخص کو ہر مرتبہ صدقے کا ثواب ملتا رہے گا۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ کوئی شخص زمین میں کوئی پودا لگائے یا کوئی کھیتی بوئے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں یا پرندے اور جانور اس کو کھائیں تو جتنے لوگ اور جانور اس سے کھائیں گے اتنے ہی اس کے نامہ اعمال میں صدقے لکھے جائیں گے۔صحیح مسلم کی روایت میں مزید تفصیل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اس درخت یا کھیتی سے کوئی چور بھی لکڑی یا پھل وغیرہ چوری کرکے لے جاتا ہے تو چوری کرنے والے کو تو گناہ ہوگا لیکن تمہیں صدقے کا ثواب ملے گا تو یہ انتہائی آسان کام ہیں جن میں کوئی وقت بھی خرچ نہیں ہوتا لیکن ان کاموں کی وجہ سے انسان کے درجات بہت بلند ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات تو انسان کی بخشش کا سبب بن جاتے ہیں۔
    رسول اکرم نے ایک بدکردار عورت کا وقعہ بیان فرمایا جو اعلیٰ درجے کی صحیح سند کے ساتھ آتا ہے جو صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک عورت کا پیشہ حرام تھا۔ وہ ایک مرتبہ ایک کنویں کے پاس سے گزری تو دیکھاکہ ایک کتا ہے جس کی زبان شدتِ پیاس کی وجہ سے باہر نکلی ہوئی ہے اور وہ پیاس کی وجہ سے مرنے کے قریب ہے۔ اس عورت نے اپنا دوپٹہ اتارا اور اس میں اپنے چمڑے کے موزے کو باندھا اور پھر اس کو کنویں میں ڈال کر اس سے پانی نکال کر اس کتے کو پلادیا۔اب دیکھیں کہ اس عورت کے کتنے بڑے گناہ تھے لیکن اس نے صرف اتنا سا کام کیا کہ ایک کتے کو پانی پلادیا۔ صرف ایک چھوٹی سی نیکی اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بخشش فرمادی۔ صحابہ کرامؓ نے جب یہ رسول اکرم سے سنا تو حضور سے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے؟ آپ نے فرمایا’’ہر وہ جانور جس کا کلیجہ گیلا ہو(یعنی وہ زندہ ہو) اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر ثواب ملتا ہے۔ گویاکسی بھی جاندار کے ساتھ حسن سلوک کرنے پر انسان کے نامہ اعمال میں ثواب لکھا جاتا ہے البتہ جو جانور انسان کو تکلیف پہنچاتے ہیں جیسے سانپ، بچھو،چھپکلی وغیرہ یا کوئی ایسا درندہ جس سے خطرہ ہوکہ وہ نقصان پہنچاسکتا ہے اسے مارا جائے۔
    ایک اور حدیث میں حضور نے  3آسان کاموں کا حکم فرمایا ’’رحمن کی عبادت کرو، لوگوں کو کھانا کھلاؤ، سلام کو عام کرو(یعنی ہر مسلمان کو سلام کرو خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو) تو تم جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہوجاؤگے‘‘(ترمذی وابن ماجہ) یہ تین کام ایسے ہیں جوروزانہ کئے جاتے ہیں لیکن اگر یہی اخلاص کے ساتھ کئے جائیں تو حضور کی طرف سے بشارت دی گئی ہے۔ عبادات کا ثواب تو ہے ہی لیکن کسی بھوکے کو کھانا کھلادینا اور کسی مستحق کا پیٹ بھردینا بھی ثواب کا حامل ہے۔ اسی طرح اگر ہر ملنے والے مسلمان کو سلام کیا جائے تو اس کا بھی بہت ثواب ہے خصوصا ًسلام میں پہل کرنے کا تو اور بھی زیادہ ثواب ہے چنانچہ ایک اور حدیث میں ہے’’سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے پاک ہوتا ہے‘‘ لہذا سلام میں پہل کرنا تکبر کا بھی بہترین علاج ہے۔ ایک حدیث میں رسول اللہ  کا ارشاد ہے ’’ کسی مسلمان سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی صدقہ ہے‘‘ کوئی بھی مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملے تو اس طرح مسکراکر ملے کہ دوسرے شخص کی خوشی کا باعث ہو تو یہ نہ صرف ثواب کا کام ہے بلکہ اس سے صدقہ کا بھی ثواب ملتا ہے۔ صبح سے شام تک ہمیں نہ جانے کتنے ایسے مواقع میسر آتے ہیں جن میں سیکڑوں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ، بازار میں دکاندار سے، بس میں کنڈیکٹر سے،بس میں بیٹھے ہوئے مسافروں سے اور نہ جانے کتنے لوگوں سے روزانہ ملاقات ہوتی ہے۔ اگر ہر مرتبہ ہر شخص سے مسکراکر ملیں تو ہرہر مرتبہ صدقہ کا ثواب ملے گا۔ اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ غریب سے غریب شخص بھی ان صدقوں کو بڑی آسانی سے ادا کرسکتا ہے۔
    اسی طرح کسی شخص کو کسی نیک کام کی ترغیب دینا اور گناہ سے بچنے کی نصیحت کرنا بھی صدقہ ہے۔رسول اکرم کا ارشاد ہے ’’تیرا کسی کو اچھی بات کی ترغیب دینا اور بری بات سے منع کردینا بھی صدقہ ہے اور راستہ بھول جانے کے مقام میں کسی کو راستہ بتلادینا بھی تیرے لئے صدقہ ہے‘‘(ترمذی)مثلاً کسی شخص کو نماز کی طرف ترغیب دینا یا نماز باجماعت کیلئے مسجد جانے کی طرف ترغیب دینا یا اگر کوئی شخص خلاف سنت کام کر رہا ہے تو اس کو مسنون طریقہ بتادینا غرض کسی ثواب کے کام کی ترغیب دینا بھی بہت ثواب کا کام ہے لہذا احادیث سے مضمون بھی ثابت ہے کہ ’’نیک کام کی طرف رہنمائی کرنے والا بھی نیک کام کرنے والے کی طرح ہے‘‘ گویا جتنا اجر نیک کام کرنے والے کو اس نیک کام پر ملے گا اتنا ہی اجر اس نیک کام کی طرف رہنمائی کرنے والے کو ملے گا۔ ہمارے ہاں اکثر اس سے غفلت برتی جاتی ہے کہ جب کوئی شخص کسی جگہ کا پتہ پوچھتا ہے تو اس کو غفلت کے ساتھ اندازے سے راستہ بتادیا جاتا ہے اور اکثر لوگ اس دینی تعلیم سے ناواقف ہیں۔
    اگر کوئی شخص ہم سے راستہ پوچھ رہا ہے اور ہم وہ راستہ اچھی طرح جانتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم اس کو ٹھیک ٹھیک راستہ بتائیں تاکہ اس کو پریشانی نہ ہو اور اگر ہمیں وہ راستہ صحیح معلوم نہیں تو بجائے اس کے کہ اس کو اٹکل پچو راستہ بتائیں ، اس سے کہہ دینا چاہئے کہ ہمیں راستے کا صحیح علم نہیں۔ دراصل یہ ہمارے دین کی تعلیم ہے کہ ہمارے کسی کام سے کسی دوسرے کو ناحق تکلیف نہ ہو لیکن ہم نے اپنی دینی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا اور غیر قوموں نے ہماری انہی تعلیمات کو اپنالیا ہے جس کی بدولت وہ ترقی کر رہے ہیں۔یہ غیر مسلم لوگ دین ومذہب پر ایمان نہیں رکھتے ، دوسری طرف ہمارا دین ہمیں سب کچھ بتاتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب کا وعدہ بھی فرماتا ہے۔ ہم نے اپنے دین کو چھوڑدیا اور دوسرے لوگوں کی نقل کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیر مسلم ہمارے کردار کو دیکھ کر مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کے ذہن میں یہ تاثر قائم ہے کہ ان کا اسلام بھی ایسا ہی ہوگاجیسے یہ مسلمان ہیں جبکہ خود ان میں بے حیائی، فحاشی ، حرام خوری اور ان جیسی بہت سی خرابیاں پائی جاتی ہیں جن کی وہ سزا بھی بھگت رہے ہیں لیکن انہوں نے مسلمانوں کی بہت سی اچھی عادتیں اپنا کر دنیا میں ترقی حاصل کرلی ہے۔ 
مثلاًایک یہ کہ کوئی شخص دوسرے کو علم کی بات سکھادے ، کوئی دین کی بات سکھادے۔جس شخص نے کسی کو علم سکھادیا اس علم سے اس کو جو فائدہ ملتا رہے گا اس کا ثواب مرنے والے کو بعد میں ملتا رہے گا۔ مثلا ًکسی نے کسی کو قل ہواللہ سکھادی ، یا لا الہ الا اللہ سکھادیا اور سکھانے والا مرگیایا زندہ ہے تو دونوں صورتوں میں جتنی مرتبہ یہ پڑھاجائے گا اتنی ہی مرتبہ سکھانے والے کو ثواب ملے گا، یہ صدقۂ جاریہ ہے چنانچہ تعلیم دین سب سے بڑا صدقہ ہے جاریہ ہے۔ اسی واسطے استاد کا درجہ بہت اونچا ہے کیونکہ وہ بہت بڑا صدقہ جاریہ چھوڑکر جاتا ہے پھر اس کے جتنے شاگرد لوگوں کو علم یا دین کی بات سکھائیں گے اس کا ثواب اس شاگردکے لوگوں کو بھی ملے گا اور اس استاد کو بھی۔ اسی طرح باپ کو بھی ثواب ملے گا کیونکہ اگر وہ اپنے بچے کو استاد تک پہنچانے کی کوشش نہ کرتے تو تعلیم دلوانا ممکن نہ ہوتا ، اسے تعلیم دلوانے کی بدولت وہ بچہ ماں باپ کیلئے بھی صدقۂ جاریہ بن جاتا ہے۔
    دوسرا کنواں، تیسرا نہر، چوتھا درخت اور بانچواں عمل مسجد ہے۔کسی نے پانی پہنچانے کیلئے نہر کھودی یا کنواں کھوددیا یا کوئی درخت لگایا ۔ اس سے جب تک لوگ فائدہ اٹھائیں گے یا جانور اور حشرات کیڑے مکوڑے جو کوئی بھی فائدہ اٹھائے گا، لگانے والے کو صدقے کا ثواب ملتا رہے گا یا کسی نے مسجد بنادی، جتنے آدمی اس میں نماز پڑھیں گے، جب تک وہ مسجد رہے گی سب نمازوں کا ثواب بھی مسجد بنانے والے کو ملتا رہے گا۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں ہے کہ جس نے مسجد بنادی ، اللہ تعالیٰ اس کیلئے جنت میں گھر بنادیں گے۔
    چھٹاعمل قرآن کا نسخہ اور 7واں نیک اولاد ہے۔کسی نے اپنے ترکے یا میراث میں قرآن کریم کا نسخہ چھوڑا، اب اسے دوسرے لوگ پڑھتے ہیں ، یہ اس کیلئے صدقہ جاریہ ہوجائے گایا کوئی اولاد چھوڑی جو اس کے مرنے کے بعد اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتی ہے۔ یہ 7کام ہیں جن کا ثواب انسان کو مرنے کے بعد ملتا رہتا ہے۔ اس سے ایک بات معلوم ہوگئی کہ دینی مدارس کی فضیلت کتنی عظیم الشان ہے کو کیونکہ ان سات اعمال میں سب سے افضل صدقۂ جاریہ تعلیم دین ہے چنانچہ اس حدیث میں بھی رسول اللہ نے اس کو سب سے پہلے ذکر فرمایا اور اسی سے مدرسوں کی اہمیت بھی واضح ہوگئی کیونکہ تعلیم دین مدرسوں میں ہوتی ہے تو ان مدرسوں کے ساتھ کوئی شخص تعاون کرے یا کوئی عمارت یا کمرہ بنوادے یا پیسے دیدے، جب تک مدرسہ چلتا رہے گا اس کا ثواب ملتا رہے گا۔
    نیک کاموں میں خرچ کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جو شخص نیا مشرف بہ اسلام ہوا ہے اگر وہ حاجت مند ہے تو اس کی مالی امداد اس نیت سے کی جائے کہ وہ مانوس اوراس کے دل میں اسلام کی محنت جاگزیں ہوجائے اور اس کا ایمان مضبوط ہوجائے تو یہ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے کاموں میں سے بہت بڑا کار ثواب ہے۔ یتیم کے ساتھ شفقت ومحبت اور اس پر خرچ کرنے کی بھی بڑی فضیلت آئی ہے چنانچہ رسول اکرم کا ارشاد ہے ’’قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق دے کر بھیجا ہے کہ حق تعالیٰ قیامت کے دن ایسے شخص کو عذاب نہیں دے گا جو یتیم پر رحم وشفقت کرے اور اس سے نرمی کے ساتھ بات کرے اور اسکی یتیمی اور بے چارگی پر ترس کھائے‘‘ (طبرانی)چنانچہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ آدمی یتیم پر خرچ کرے ، جب بات نرم کرنے کا اتنا ثواب ہے تومال خرچ کرنے میں کتنا ثواب ہوگا۔ اس حدیث میں یتیم خانوں کی امداد کرنے کی بھی فضیلت ثابت ہوئی۔ لوگوں کو نفع پہنچانے والا کام اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ سے پوچھا’’ اللہ کے نزدیک سب سے محبوب بندہ کون ہے؟‘‘ حضور نے فرمایا’’وہ شخص اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ نفع پہنچانے والا ہے‘‘ (طبرانی) معلوم ہوا کہ دوسروں کو نفع پہنچانا کتنی بڑی عبادت ہے ، اس کی بدولت بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:- - -  -کیا صفر میں شادی بیاہ مکروہ ہے؟

شیئر: