Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ایک کلو آٹا 60 ڈالر کا‘، غزہ میں امدادی سامان مہنگے داموں بیچنے والے گینگز سرگرم

ماہرین نے غزہ میں قحط پھیلنے کے خدشات ظاہر کیے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
اسرائیل کے غزہ پر حملے کے بعد وہاں کھانے پینے کے سامان کی ترسیل تقریباً ناممکن ہو کر رہ گئی ہے تاہم تھوڑی بہت مقدار میں پہنچنے والے امدادی سامان کو بھی کچھ گروہ اور تاجر لے کر ذخیرہ کر لیتے ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہی سامان لوگوں کو مہنگے داموں فروخت کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حالیہ دنوں کے دوران ایک کلو آٹے کی قیمت 60 ڈالر تک گئی جبکہ ایک کلو دال 35 ڈالر میں فروخت ہو رہی ہے۔ اس قیمت پر خوراک کا سامنا خریدنا علاقے کے زیادہ تر لوگوں کی استطاعت سے باہر ہے۔
غزہ کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ وہاں قحط کے خطرات پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ 21 ماہ سے جاری جنگ کے دوران زیادہ تر لوگوں کے پاس مالی وسائل باقی نہیں رہے ہیں۔
بین الاقوامی دباؤ کے بعد اسرائیل کی جانب سے اتوار کو یہ اعلان سامنے آیا کہ مزید امدادی سامان کی ترسیل کی جائے گی۔
اس سے اشیا کی قیمتوں میں کسی حد تک کمی آئی ہے تاہم اب بھی صورت حال بہتر نہیں ہوئی۔
اس وقت علاقے میں اقوام متحدہ کے لوگو والے آٹے کے تھیلے اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم غزہ ہیومنٹیریشن فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کیا گیا دوسرا سامان موجود ہے جو بنیادی طور پر مفت فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ جاننا مشکل ہے کہ امدادی سامان کے کتنے حصے کو کہیں اور لے جایا جا رہا ہے جبکہ دونوں ادارے بھی یہ پتہ لگانے کے قابل نہیں ہیں کہ ان کی جانب سے جاری ہونے والی امداد کس کس کو ملی ہے۔
حالیہ ہفتوں میں امدادی سامان کی تقسیم کے دوران ہونے والے ہنگاموں کے بعد کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ صرف جسمانی طور پر مضبوط لوگ ہی سامان لینے میں کامیاب ہوئے۔
رفح کی خیمہ بستی میں اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ رہنے والے محمد ابو طہٰ کا کہنا ہے کہ جب بھی امدادی سامان آتا ہے تو نوجوانوں پر مشتمل چند گروہ ہمیشہ آگے ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب یہ ایک بہت بڑا کاروبار بن گیا ہے۔‘

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں ایک لاکھ خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت علاقے کی صورت حال یہ ہے کہ امدادی مراکز کی طرف جانے والے راستے افراتفری کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں ایک لاکھ خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
دوسری جانب امدادی تنظیموں اور میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ ان کے اپنے سٹاف کے ارکان کو بھی غذائی قلت کا سامنا ہے۔
اسی طرح غزہ وزارت صحت کے مطابق پچھلے تین ہفتوں کے دوران درجنوں فلسطینی بھوک سے متعلقہ وجوہات کے باعث جان سے گئے۔
اسرائیلی کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد خوراک کا سامان لے جانے والے اقوام متحدہ کے قافلوں پر اکثر مسلح گروہوں کے حملے ہو رہے ہیں جبکہ امدادی مراکز بھوکے لوگوں سے بھرے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے پروگرام برائے خوراک کی جانب سے پچھلے ہفتے کہا گیا تھا کہ داخلی سکیورٹی بحال ہونے کے بعد ہی وہ کمزور ترین لوگوں تک محفوظ طور پر امدادی سامان کی فراہمی کر پائے گا جو ممکنہ طور پر جنگ بندی کے بعد ہی ہو سکے گا۔

 

شیئر: