Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سی بی آئی میں خانہ جنگی

***معصوم مرادآبادی***
رشوت خوری اور بدعنوانی نے ملک کو اندر سے کتنا کھوکھلا کردیا ہے، اس کا اندازہ حال ہی میں ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی میں پھیلے ہوئے رشوت خوری کے جال سے ہوا ہے۔ اب تک یہی سمجھا جارہا تھا کہ رشوت خوری اور کرپشن کے سینکڑوں معاملات کو اجاگر کرنے والی سی بی آئی کے افسران دودھ کے دھلے ہوئے ہیں اور ان پر بدعنوانی کا کوئی الزام غلطی سے بھی عائد نہیں کیاجاسکتا لیکن جس طرح سی بی آئی ڈائریکٹر اور اسپیشل ڈائریکٹر نے ایک دوسرے پر کروڑوں کی رشوت خوری کے الزامات عائد کئے ہیں، اس نے سی بی آئی کی ساکھ کو مٹی میں ملادیا ہے حالانکہ ان دونوں افسران کو چھٹی پر بھیج دیاگیا ہے اور رشوت خوری کے معاملات کی چھان بین کیلئے سینٹرل ویجلنس کمشنر کی نگرانی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے لیکن سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما نے اپنے خلاف سرکاری کارروائی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرکے حکومت کیلئے ایک نیا درد سر پیدا کردیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’نہ کھاؤں گا اور نہ کھانے دوں گا‘‘ کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ ہوا ہے لیکن وہ اس معاملے میں بالکل خاموش ہیں۔ کانگریس صدر راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ سی بی آئی کے اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا وزیراعظم نریندرمودی کے خاص آدمی تھے۔ استھانا نے گودھرا ٹرین سانحہ کی تحقیقات کرنے والی ایس آئی ٹی کی ٹیم کی قیادت کی تھی۔ وزیراعظم سے قربت کی بنیاد پر ہی انہیں گجرات سے بلاکر سی بی آئی میں تعینات کیاگیا تھا حالانکہ جب ان کی تقرری ہوئی تھی تبھی اس پر سوال کھڑے کئے گئے تھے اور یہ معاملہ عدالت میں بھی گیا تھا لیکن اب خود سی بی آئی نے اپنے اس ہونہار اسپیشل ڈائریکٹر کے خلاف ایک دو نہیں پوری  ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔ 
گزشتہ پیر کو پورے ملک نے یہ عجیب وغریب منظردیکھا کہ سی بی آئی نے خود اپنے ہی ہیڈکوارٹر پر چھاپہ مار کر بدعنوانی کے ایک کیس سے وابستہ دستاویزات ضبط کئے اور اس کیس کو کمزور کرنے کے الزام میں اپنے ہی ڈی ایس پی دیویندر کمار کو گرفتار کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا ہے۔ یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ بدعنوانی کے سینکڑوں معاملات کو طشت ازبام کرنے والی سی بی آئی کے افسران خود اپنے ہی جال میں پھنس گئے ہیں اور ان کے خلاف چھاپہ مار کارروائی انجام دی گئی ہے۔ سی بی آئی کے ڈائریکٹر آلوک ورما اور اسپیشل ڈائریکٹر راکیش استھانا کے درمیان برتری کی جنگ نے دونوں کے اصل کردار کو عوام کے سامنے بے نقاب کردیا ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف رشوت خوری کے جو الزامات لگائے ہیں ان کی اصلیت تو تحقیقات کے بعد ہی سامنے آئے گی لیکن اتنا ضرور ہے کہ اب کوئی سی بی آئی کی ایماندارانہ تحقیقات پر بھروسہ نہیں کرے گا۔ عام طورپر یہ خیال کیاجاتا تھا کہ سی بی آئی ملک کی ایک صاف وشفاف اور ایماندار تحقیقاتی ایجنسی ہے اور وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرنے کا ہنر جانتی ہے اسی لئے ہر سنگین اور پیچیدہ مسئلے کوحل کرنے کیلئے سی بی آئی تحقیقات کا مطالبہ کیاجاتا تھا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ لوگ کسی بھی مسئلے کی تحقیقات کے لئے سی بی آئی کا نام لینے سے گریز کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ استھانا کیخلاف کارروائی پر عدالتی سماعت کے دوران سی بی آئی کے ایک وکیل نے کہا کہ’’ لکڑی میں اگر دیمک لگ جائے تو وہ خراب ہوجاتی ہے اور کسی کام کی نہیں رہتی‘‘ حالانکہ عدالت نے اس تبصرے کو عدالتی وقار کے منافی قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں کسی ایک لکڑی میں دیمک نہیں لگی بلکہ پورا نظام ہی دیمک کی چپیٹ میں ہے۔
یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ سی بی آئی ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی ہے اور اس نے بدعنوانی اور کرپشن کے کئی معاملوں کو انتہائی چابکدستی کے ساتھ حل کیا ہے۔ آج بھی کئی ہائی پروفائل کیسوں کی چھان بین سی بی آئی کے پاس ہے۔ سی بی آئی براہ راست وزیراعظم کے کنٹرول میں ہے اور سینٹرل ویجلنس کمشنر (سی وی سی) اس کی نگرانی کرتا ہے۔ سی وی سی کی چھان بین کے بعد ہی سی بی آئی میں ایسے افسران کی تقرری کی جاتی ہے جو کسی قسم کی بدعنوانی میں ملوث نہ رہے ہوںلیکن اسے کیاکہاجائے کہ حالیہ ٹکراؤ کے نتیجے میں یہ تکلیف دہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ سی بی آئی جن لوگوں کے خلاف تحقیقات کررہی ہے، ان کے معاملات کو کمزور کرنے کیلئے سی بی آئی کے افسران کروڑوں روپے کی رشوت وصول کررہے ہیں۔ اب تک تو سی بی آئی پر یہی الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ حکومت کے اشاروں پر کام کرتی ہے اور اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے سیاسی مخالفین کو سبق سکھانے کیلئے سی بی آئی کو ایک ہتھیار کے طورپر استعمال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 2013میں سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو ایک ایسے طوطے سے تشبیہ دی تھی جو صرف اپنے مالک کی زبان سمجھتا ہے۔ 
سی بی آئی نے اپنے ہی اسپیشل دائریکٹر راکیش استھانا کیخلاف6 معاملوں میں ایف آئی آر درج کی ہے تو استھانا نے اپنے ڈائریکٹر کے خلاف سی وی سی کو تقریباً ایک درجن معاملوں میں بدعنوانی میںملوث ہونے کی شکایات بھیجی ہیں۔ انہوں نے شکایتوں کی کاپیاں کابینہ سکریٹری کے پاس بھی بھیجی ہیں۔ استھانا پر بڑودہ کی ایک ایسی کمپنی سے 3کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام ہے جس کے خلاف 5 ہزار کروڑروپے کی ہیرا پھیری کا کیس چل رہا ہے۔ دوسری طرف استھانا نے اپنے ڈائریکٹر آلوک ورما پر گوشت کے تاجر معین قریشی کے معاملے میں2کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام لگایا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سی بی آئی استھانا کے علاوہ اپنے کئی دیگر افسران کے خلاف بھی رشوت خوری کے الزامات کی تحقیقات کررہی ہے۔ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کا کہنا ہے کہ سی بی آئی میں جو کچھ بھی ہوا ہے، اس سے تحقیقاتی ایجنسیوں کے اعلیٰ معیار کے سلسلے میں گہرے شکوک وشبہات پیدا ہوگئے ہیں۔ انہوں نے حکومت کے اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی بھی صورت میں ملک کا تحقیقاتی عمل مذاق کا موضوع نہیں بننے دیاجائیگا اور اس کا اعتبار قائم رکھا جائیگا۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان ایسے حالات میں سامنے آیا ہے جب دواعلیٰ افسران کے ٹکراؤ نے ملک کی سب سے بڑی تحقیقاتی ایجنسی کے وقار کو ملیامیٹ کردیا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ مودی حکومت میں ملک کے جمہوری اداروں کو جس قسم کا نقصان پہنچا ہے، اس کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔ آزادی کے بعد جن جمہوری اداروں کو بڑی محنت اور قربانی کے ساتھ قائم کیاگیا تھا، وہ اب یکے بعد دیگرے اپنی معتبریت کھوتے چلے جارہے ہیں۔ سی بی آئی جیسی ملک کی سب سے بڑی اور معتبر تحقیقاتی ایجنسی کا زوال دراصل ہمارے پورے نظام حکومت کا زوال ہے جس کی جواب دہی طے ہونی چاہئے۔ 
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں