Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اِن کی بھی سنئے

 ملک کی ہر پسماندہ ریاست میں عورتوں کا بدترین استحصال یوںہی جاری ہے
معصوم مرادآبادی
     یورپ اور امریکہ کی سرزمین سے شروع ہونے والی’ ’می ٹو‘‘ مہم اب ہندوستان میں اپنا جلوہ دکھارہی ہے۔ اس مہم کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب ہالی وڈ کی ایک اداکارہ نے مشہور فلم پروڈیوسر ہاروی وائن اسٹائن پر زیادتی کا الزام لگاکر سنسنی پھیلادی تھی۔ اس کے بعد یورپ اور امریکہ میں ایسی بے شمار خواتین اپنی دلخراش آپ بیتیوں کے ساتھ منظرعام پر آئیں جنہوں نے’ ’شرم وحیا‘ ‘ کی وجہ سے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو اپنے ہی سینوں میں دبا رکھا تھالیکن اداکارہ الیسا میلانوکی کہانی منظرعام پر آنے کے بعد انہیں حوصلہ ملا اور انہوں نے کئی ایسے سفید پوش اور نیک نام لوگوں کو بے نقاب کردیا جو سماج میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ یہی سب کچھ اب ہندوستان میں بھی ہورہا ہے۔ فلم سے لے کر سیاست تک اس کی زبردست آنچ محسوس کی جارہی ہے۔ یہاں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران فلمی دنیا سے وابستہ خواتین نے ماضی میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی جو داستانیں بیان کی ہیں، اس سے ہندوستانی فلم انڈسٹری ہی نہیں بلکہ سیاست اور صحافت کے میدانوں میں بھی تہلکہ مچا ہوا ہے۔ اس مہم کی آنچ ایک مرکزی وزیر کے دامن تک بھی جاپہنچی ہے جو ملک کے بڑے نامی گرامی صحافی رہ چکے ہیں۔ ان کے ماتحت کام کرنے والی ایک درجن سے زیادہ ایسی خاتون صحافیوں نے زبان کھولی ہے جنہیں انہوں نے کام کے دوران زیادتی کا شکار بنایا ۔ مذکورہ وزیر کی وجہ سے مودی حکومت سخت دباؤ میں ہے۔ ہوسکتا ہے جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں تو وزیر موصوف کو ان کے عہدے سے فارغ کردیاجائے۔
    حالیہ مہم ایک فلم اداکارہ تنوشری دتا کے ایک بیان سے شروع ہوئی ہے جس میں انہوں نے 20سال قبل ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران اپنے ساتھ ہوئی زیادتی کا واقعہ بیان کیا ہے۔ اس واقعہ کیلئے انہوں نے مشہور فلم اداکار نانا پاٹیکر کے خلاف باقاعدہ پولیس میں رپورٹ درج کرائی ہے۔ تنو شری دتہ کا بیان منظرعام پر آنے کے بعد فلم اور ٹی وی کی کئی اداکاراؤں نے اپنے ساتھی ہیروز اور پروڈیوسر پر مختلف اوقات میں کی گئی زیادتیوں کو طشت ازبام کردیا ہے۔ یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ زندگی کے مختلف میدانوں میں کام کرنے والی خواتین اپنے استحصال کی کہانیاں بیان کررہی ہیں۔ ان بیانات کی روشنی میں قصورواروں کو سزا دلوانے کے مطالبات بھی ہورہے ہیں۔ حکومت حالانکہ اس معاملے میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہے کیونکہ اس میں کئی ’پردہ نشینوں‘ کے نام بھی آتے ہیں۔ شدید دباؤ کے بعد حکومت نے ’می ٹو‘ کے معاملات کی تحقیقات کیلئے سبکدوش ججوں کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
    یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ فلم ، ٹیلی ویژن ، ماڈلنگ ، صحافت، ادب اور سیاست کے میدان ایسے ہیں جس میں بڑا گلیمر اور کشش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ان میدانوں میں نام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی ان میدانوں میں اپنانام روشن کرنے کی شدید خواہش رکھتی ہیں ۔ زندگی کے ان نمایاں میدانوں میں ہر جگہ مردوں کی حکمرانی ہے اور ان ہی کا سکہ چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان میدانوں میں قسمت آزمانے والی خواتین کا استحصال سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ خواتین جلد ازجلد ترقی کی بلندی کو چھونے کیلئے’’ مختصر‘‘ راستوں کا انتخاب کرتی ہیں اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں سے زیادتیوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ کسی زمانے میں شریف گھرانوں کی خواتین گلیمر کے ان میدانوں میں جانا پسند نہیں کرتی تھیں لیکن اب وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کے معیار اور پیمانے بھی بدل چکے ہیں۔ گلیمر کی دنیا میں اپنا سکہ جمانے کیلئے مختصر راستوںکا انتخاب کرنے والی خواتین ہی سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کوئی خاتون10 یا 20 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا انکشاف کرے اور قصوروار کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔ اس میں جھوٹے الزامات یا بلیک میلنگ کی گنجائش بھی موجود رہتی ہے۔
    قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’’می ٹو‘‘ کے تحت چلنے والی تازہ مہم میں اب تک بڑے شہروں میں رہنے والی فیشن ایبل خواتین ہی فی الحال اپنی داستانیں بیان کررہی ہیں جبکہ اُن میں ابھی تک ان خواتین کی کوئی آواز شامل نہیں ، جو اپنی غریبی ، لاچاری اور مجبوری کی وجہ سے سب سے زیادہ ظلم اور زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔ گلیمر کی دنیا میں زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے جبکہ اس میدان میں استحصال کا شکار ہونے والی غریب خواتین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ہندوستان میں قدم قدم پر مذہبی رسم ورواج اور اونچ نیچ کے نام پر عورتوں کا استحصال صدیوں سے جاری ہے۔ اس کی محض ایک مثال دینا کافی ہوگاکہ جنوبی ہند کی ریاست آندھراپردیش میں 30ہزار دیوداسیوں کو پہلے دیوی بنایاگیا اور پھر انہیں طوائف بنادیاگیا ۔ ملک کی ہر پسماندہ ریاست میں عورتوں کا بدترین استحصال یوںہی جاری ہے۔ لاکھوں بیوہ عورتیں آشرموں اور مندروں میں بدترین زیادتیوں کا شکار ہیں۔ معمولی مزدوری اور کام کاج حاصل کرنے کے لئے آجروں کی خواہشیں پوری کرنے والی عورتوں کی تعداد بے شمار ہے۔ کئی علاقوں میں ’’بسیڑا ذات‘‘ کی عورتوں کو محض اس لئے طوائف بننا پڑتا ہے کہ اس ذات کی خواتین اسکے علاوہ کچھ نہیں کرسکتیں۔ اسی ہندوستان میں ’’نیوگ پرتھا‘‘ کے نام پر اعلیٰ ذات کے لوگ پسماندہ ذات کی عورتوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں۔ آج بھی بعض مقامات پر عورتوں کی نیلامی ہوتی ہے اور انہیں ساہوکاروں کو کرایہ پر دیا جاتا ہے۔ فسادات میں بدترین ظلم وزیادتی کا شکار ہونے والی ہزاروں خواتین کے مجرموں کو آج تک کوئی سزا نہیں ملی ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ’’می ٹو‘‘ کے نام پر موجودہ مہم چلانے والی اعلیٰ طبقے کی خواتین کی تعداد اس ملک میں0.1 فیصد بھی نہیں اس لئے یہ مہم تمام خواتین کی نہیں کہی جاسکتی کیونکہ اس میں 99فیصد استحصال زدہ ان خواتین کی داستانوں کو شامل نہیں کیاگیا کیونکہ وہ غریب ، کمزور، لاچاراور بے زبان ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -گھبرائیں نہیں حوصلہ رکھیں
 

 

شیئر: