Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ماسکو نے 2مرتبہ سعودی عرب کا ساتھ دیا!

محمد الساعد۔۔عکاظ

    1925ء کے دوران نجد اورحجاز میں قائم ہونیوالی نئی ریاست کو سب سے پہلے عالمی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ علاقائی طاقتوں ، اسلامی اور فقہی تنظیموں نے اُس وقت جزیرہ عرب میں رائج فقہی مسلک سے اختلاف کی بنیاد پر سعودی عرب کیخلاف زبردست تشہیری مہم چلائی تھی۔ مقصد خطے کے نئے رہنما شاہ عبدالعزیز آل سعودؒ کی تصویر مسخ کرنا، ان کے مشن کو معطل کرنا اور ان کی نوخیز ریاست کو دھمکانا تھا۔ الزام پہلے سے تیار تھا۔ الزام لگایا گیا کہ ’’وہابیوں نے حجرۂ نبویہ کو نقصان پہنچایا ہے۔انہوں نے گنبد خضراء کو منہدم کردیا ہے۔ظاہر ہے یہ الزام من گھڑت تھا ، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ نئی ریاست کے دشمنوں نے اس کے بانی کو بدنام کرنے کیلئے گھڑلیا تھا۔
    شاہ عبدالعزیز کی قائم کردہ ریاست غریب تھی۔ اپنے دفاع کیلئے اس کے پاس بنیادی ڈھانچہ نہیں تھا۔ طرفہ تماشہ دیکھئے کہ مذکورہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی۔ افواہ کا پھیلانا فطری امر تھا کیونکہ اس کا تعلق مسلمانوں کے مقدس مقام سے تھا۔حقیقت یہ تھی کہ شاہ عبدالعزیز کی فوج اہل مدینہ کی دعوت پر مصالحت کے ذریعے مدینہ منورہ میں داخل ہوئی تھی ۔ اہل مدینہ کا اصرار تھا کہ ان کے شہر کی چابی بانی مملکت کا بیٹا شہزادہ محمد بن عبدالعزیز از خود وصول کرے۔ شاہ عبدالعزیز کی فوج مدینہ منورہ میں پُرامن طور پر داخل ہوئی تھی اور اس نے وہاں کے باشندوں کے وقار اور مقامات مقدسہ کا تحفظ کیا تھا۔
    سعودی عرب ماسکو کے رویے کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا جس نے واضح کیا تھا کہ شاہ عبدالعزیز نے نہ تو مقامات مقدسہ کو کسی طرح کا نقصان پہنچایا اور نہ ہی روضہ مبارکہ کے انہدام کی کوئی کوشش کی ۔ ماسکو نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ پوری دنیا کو جتایاتھا کہ شاہ عبدالعزیزحرمین شریفین کے تحفظ کیلئے دنیا بھر کے لوگوں کی طرف سے شکریے کے مستحق ہیں۔ماسکو خطے سے خارج پہلا دارالحکومت تھا جس نے فروری1926ء کے دوران نجد و حجاز پر شاہ عبدالعزیز کے اقتدار کو تسلیم کیا تھا۔
    شاہ عبدالعزیز نے اپنے موقف کی حمایت کیلئے عظیم الشان عالمی اسلامی کانفرنس طلب کی۔ اس کا مقصد گنبد خضراء کو نقصان پہنچانے والی افواہ کی تردید بھی تھا۔ عالم اسلامی کے رہنما یہاں پہنچے اور انہوں نے بچشم خود دیکھا کہ گنبد خضراء کے انہدام کا دعویٰ افواہ سے زیادہ کچھ نہیں تھا اور اس کا مقصد شاہ عبدالعزیز کیخلاف بڑی سازش رچنا تھا۔سوویت یونین نے مذکورہ کانفرنس میں شرکت کیلئے عظیم الشان مسلم وفد ارسال کیا تھا۔ سوویت یونین نے امریکہ سے کئی سال پہلے جدہ میں اپنا سفارتی مشن قائم کیا تھا۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے روسی سفیر کے قتل کے بعد ان کی اہلیہ کو ان کی وفات تک شاہی میزبانی میں رکھا تھا۔ اہم تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ سعودی عرب نے سب سے پہلا جو تجارتی سودا بیرونی دنیا کے کسی ملک سے کیا تو وہ سوویت یونین تھا۔ مملکت نے اسے تیل دینے کا سودا کیا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اُس وقت تک مملکت میں پٹرول دریافت نہیں ہوا تھا۔ سعودی عرب نے ماسکو کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز کو ماسکو کے دورے پر بھیجا تھا۔ یہ پہلے اعلیٰ درجے کے عہدیدار تھے جنہوں نے ماسکومیں سوویت عہدیداروں سے ملاقات کی تھی۔8ویں عشرے کے وسط میں امریکہ میں متعین سعودی سفیر شہزادہ بندر بن سلطان نے تیل منڈی میں بحران کے پیش نظر سوویت یونین کی قیادت کے ساتھ پٹرول لائن قائم کرنے کی سبیل پیدا کی تھی۔ شاہ فہد بن عبدالعزیزؒ نے اس کی سرپرستی کرتے ہوئے اپنے وزیر پٹرولیم ہشام ناظر کو پٹرول کے سودے کیلئے ماسکو بھیجا تھا۔
    شہزادہ بندر بن سلطان کے ہاتھوں روس سعودی تعلقات اُس وقت مزید بہتر ہوئے جب انہوں نے صدر گورباچوف سے ملاقات کی۔کویت پر عراق کی لشکرکشی سے متعلق نقطہ ہائے نظر کا تبادلہ ہوا۔ گوربا چوف نے دونوں ملکوں میں سفارتخانے کھولنے کی بات کہی تو شہزادہ بندر نے کہا کہ تعلقات منقطع نہیں ہیں ، منجمد ہیں اور یہ آپ کی طرف سے کئے گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی دونوں ملکوں میں سفارتخانے بحال ہوگئے۔
    روس نے دوسری بار جمال خاشقجی کے قتل کے موقع پر یہ کہہ کر سعودی عرب کا ساتھ دیا کہ روس سعودی عرب کے ساتھ ہے۔سعودیوں کو خاشقجی کے قتل کے حقائق کی تحقیقات کرکے منظرعام پر لانے کا موقع دیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:- - - - -نفاذ شریعت کی علمبردار ریاست

شیئر: