Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا ،پہلے کسی زمانے میں“

زینت ملک ۔جدہ 
جس طرح ایک معاشرے میں مختلف طبقات ہوتے ہیں اسی طرح ہر زمانے مین مختلف افکار کے حامل افراد ہوتے ہیں وہ اس زمانے کی پہچان بنتے ہیں اور تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھے جاتے ہیں ایسے دانشور ہمیشہ کسی نہ کسی صورت ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔
ارسطو کا ذاتی خیال تھا کہ فرصت یا فراغت کے اوقات میں تفریح طبع اور لطف اندوزی کے لئے موسیقی ایک اچھا ذریعہ ہے ۔ ان کے مطابق موسیقی سے انسانی مزاج میں جمالیات ،عجز و انکساری اور ہمدردی کے لطیف جذبات تشکیل پاتے ہیں جبکہ یونانی ادب میں حماسہ نگار شاعر ”ہومر” کو شہرت عام حاصل ہے ۔دنیا کی ترقی کے ساتھ ساتھ افکار اور نظریات میں بھی تبدیلی آتی ہے۔ شاید یہ بحث ہمیشہ سے ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔
شاعر، ادیب اور مفکر اپنے زمانے کی پہچان کراتے ہیں اور ادب و تاریخ کے طالب علم ان کے فن پاروں سے سیکھنے کا کام لیتے ہیں ایک اچھا طالب علم وہی ہو تا ہے جو مطالعے کو تمام عمر اپنا محبوب مشغلہ بناے رکھتا ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بعض لوگ جہاں محنت کر کے پہنچتے ہیں، اسی مقام تک کچھ لوگ خداداد صلاحیت کی بدولت کم وقت میں پہنچ جاتے ہیں۔
منیر نیازی ان خوش نصیب لوگوں میں شامل ہیں جنہیںقدرت نے غیر معمولی صلاحیت عطا کی تھی۔ منیر نیازی کے نزدیک شاعری پورے عہد کے طرز احساس اور رویوں کا عطر ہے۔
سہیل احمد نے منیر نیازی کے بارے میں لکھا ہے کہ پہلے دور کی بنسبت بعد کے دور کی شاعری میں قرآن حکیم کے مطالعے کے اثرات واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں ۔’ ’ماہ منیر“ میں شامل ایک حمد ہے، ملاحظہ ہو :
اُسی کا حکم جاری ہے زمینوں آسمانوں میں
اور ان کے درمیاں جو ہے ، مکینوںاور مکانوں میں
ہوا چلتی ہے باغوں میں تو اُس کی یاد آتی ہے
ستارے چاند سورج ہیں ، سبھی اُس کے نشانوں میں
اُسی کے دم سے طے ہوتی ہے منزل خوابِ ہستی کی
وہ نام اک حرفِ نورانی ہے ، ظلمت کے جہانوں میں
وہ کرسکتا ہے جو چاہے ہر اک شے پر وہ قادر ہے
وہ سن سکتا ہے رازوں کو جو ہیں دل کے خزانوں میں
بچا لیتا ہے اپنے دوستوں کوخوفِ باطل سے
بدل دیتا ہے شعلوں کو،مہکتے گلستانوں میں
 منیر اس حمد سے رتبہ عجب حاصل ہوا تجھ کو
نظیر اس کی ملے شاید پرانی داستانوں میں
”ماہ منیر“ کھلے منظروں کی کائنات ہے۔ ان نظموں اور غزلوں میں جو تصویریں بار بار سامنے آتی ہیں وہ نور سے مناظر کی رنگت تبدیل ہونے کی داستان بیان کرتی ہیں:
زمین دور سے تارہ دکھائی دیتی ہے 
رُکا ہے اس پہ قمر چشم سیر بیں کی طرح 
فریب دیتی ہے وسعت نظر کی افقوں پر 
ہے کوئی چیز وہاں سحر نیلمیں کی طرح 
اور ایک جگہ منیر نیازی کہتے ہیں: 
یہ تو ابھی آغاز ہے جیسے اس پنہائے حیرت کا
 آنکھ نے اور سنور جانا ہے، رنگ نے اور نکھرنا ہے 
اسے بھی پڑھئے:وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
کئی جگہ ان کی شاعری ایک الگ ہی دنیا کی سیر کراتی ہے جس کے لئے متوجہ ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے:
 یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں
توآکے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہو ں
مکاں ہے قبر ، جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں 
”تیز ہوا اور تنہا پھول “،” جنگل میں دھنک “،” دشمنوں کے درمیان شام“،”اس بے وفا کا شہر“ ودیگر میں منیر نیازی کا فن بلندی پر نظر آتا ہے۔ ”بارشوں کا موسم ہے“ کے چند اشعارپیش خدمت: 
 بارشوں کا موسم ہے
کویلوں کی کُو کُوہے 
آم کے درختوں کی
سبز تیز خوشبو ہے 
بے مثال تنہائی 
بے کنار میداں کی
 اک جھلک کہیں اس میں
آب بحر حیواں کی 
انتظار حسین لکھتے ہیں کہ مجھے مہندی کے پیڑ اور منیر کے شعر اچھے لگتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ ان میں تھوڑی میری آنکھوں کی نمی 
 بھی شامل ہے۔ جب منیر اپنے خانپور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک بستی کو پکارنے کو جی چاہتا ہے ۔جب وہ اپنے باغوں اور اپنے جنگل کا 
 ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی حال میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں:
 جنگلوں میں کوئی پیچھے سے بلائے تو منیر
مڑ کے رستے میں کبھی اس کی طرف مت دیکھو 
لیکن شاید وہ خود مڑ کر دیکھ چکے ہیں۔ شاید جنگل اب باہر نہیں بلکہ ہمارے اندر ہے۔ منیر نیازی کیا کہتے ہیں: 
ڈر کے کسی سے چھپ جاتا ہے جیسے سانپ خزانے میں 
زر کے زور سے زندہ ہیں سب خاک کے اس ویرانے میں 
جیسے رسم ادا کرتے ہوں شہروں کی آبادی میں
صبح کو گھر سے دور نکل کر شام کو واپس آنے میں
دبی ہوئی ہے زیر زمیں اک دہشت گنگ صداو¿ں کی 
بجلی سی کہیں لرز رہی ہے کسی چھپے تہہ خانے میں 
دل کچھ اور بھی سرد ہوا ہے شام شہر کی رونق سے 
کتنی ضیا بے سود گئی شیشے کے لفظ جلانے میں 
میں تو منیر آئینے میں خود کو تک کر حیران ہوا 
یہ چہرہ کچھ اور طرح تھا ،پہلے کسی زمانے میں
منیر نیازی کی شاعری میں نامعلوم کا خوف اور نامعلوم کی کشش ہے :
 سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
 کواڑ کھول کے دیکھو، کہیں ہوا ہی نہ ہو
 نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستا ہی نہ ہو
منیر نیازی کے لئے زمین اپنے پاتال اور اپنے پھیلاﺅ کے ساتھ دہشت و حیرت سے بھرا ایک تجربہ ہے۔
 

شیئر: