Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عربوں کو اب کس آفت کا انتظار ہے؟

 
غازی دحمان ۔ الحیاۃ
    عرب دنیا ان دنوں بین الاقوامی انارکی کے قلب میں آچکی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عرب دنیا عالمی انارکی کا سب سے بڑا مرکز بن چکی ہے اور دنیا کی تمام طاقتیں عربوں کے احوال و کوائف سے چٹکیاں لے رہی ہیں تو کوئی مبالغہ نہیں ہوگا۔ دنیا بھر کے سفارتکار اور اسٹراٹیجک امور کے ماہرین عربوں کے حوالے سے دست بہ گریباں ہیں۔عربوں کی بابت مختصر مدتی اور طویل المیعاد اسکیمیں تیار کی جارہی ہیں۔ بجٹ مختص کئے جارہے ہیں۔ منظر نامہ ایسا ہے جیسا کہ کل یا پرسوں جنگ چھڑنے والی ہو اور جنگ سے پہلے کی تیاریاں ہورہی ہوں۔
    ایک طرف تو دنیا کی موثر طاقتوں کا یہ حال ہے، دوسری جانب عربوں میں اس حوالے سے کسی طرح کی کوئی ہلچل دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔ نہ آپس میں رابطے اور نہ ملاقاتیں اورنہ مشترکہ موقف اپنانے کیلئے سربراہوں کی کانفرنسیں ہیں۔ ہر ایک انفرادی سطح پر اپنے بحرانوں اور اپنے ملک کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ یہ صورتحال بالواسطہ یا بالا واسطہ شکل میں تھوپی گئی ہے۔ اس سلسلے میں لاپروائی اور کسلمندری کا اظہار کسی طرح درست نہیں۔عرب دنیا میں اس حوالے سے لاپروائی ناقابل فہم ہے۔
    عرب دنیا میں کشمکشوں اور اتحاد کے نقشے پر طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ بات بڑی آسانی سے دریافت کی جاسکتی ہے کہ ہر عرب ملک کا کسی نہ کسی خارجی طاقت سے کوئی نہ کوئی رشتہ ناتہ بنا ہوا ہے۔ اگر ہم خارجی طاقتوں کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات کا تقابل خود عربوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے کریں تو ہمیں شرمناک صورت نظر آئیگی۔ عربوں کے بیرونی طاقتوں سے تعلقات خوب سے خوب تر ہیں جبکہ باہمی تعلقات کے سلسلے میں عرب ایک دوسرے سے الگ تھلگ نظر آرہے ہیں۔ سیاسی اور سفارتی سرگرمیاں دیکھنے کو نہیں مل رہیں۔ عربوں کے درمیان دفاعی معاہدے اور مفادات کے محافظ سمجھوتے بھی بیرونی دنیا کے ساتھ دفاعی معاہدوں اور مفادات کے رشتوں کے حوالے سے بہت کم ہیں۔ چوتھائی سے زیادہ دفاعی معاہدے یا تو بین الاقوامی فریقوں سے ہیں یا علاقائی طاقتوں سے۔
    اس نقشے کے تناظر میں یہ بات بلا خوف و تردید کہی جاسکتی ہے کہ عرب ممالک بین الاقوامی تعلقات اور طاقت کے توازن کے حوالے سے انتہائی معمولی وزن کے حامل بنے ہوئے ہیں۔ اگر عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ مفادات اور دفاعی رشتوں سے بالا ہوکر کسی بھی علاقائی یا بین الاقوامی طاقت سے مذاکرات کرینگے تو انفرادی شکل میں وہ عرب ملک کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو خارجی سطح پر مذاکرات کے حوالے سے بے وزن ثابت ہوگا۔
    اس منظرنامے کے باعث عرب ممالک دفاع اور امن و سلامتی کی خدمات کی قیمت 8گنا زیادہ ادا کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔اگر عرب ممالک ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے تو ایسی صورت میں یہ قیمت کافی کم چکانا پڑتی۔
    اس حوالے سے سب سے بڑی مشکل یہ سامنے آرہی ہے کہ بیشتر عرب ممالک اپنی ترجیحات کی صحیح فہرست بنانے سے محروم ہیں۔ اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ کس عر ب ملک کی اولین ترجیح کیا ہے ؟ اسے کس قسم کے چیلنج درپیش ہیں؟تو اسے اس کا جواب بمشکل ہی مل سکے گا۔
    جتنا زیادہ انارکی بڑھے گی اتنا ہی زیادہ عربوں کا منظرنامہ زیادہ پیچیدہ ہوگا۔ عرب بحران مزید گڈ مڈ ہونگے ۔ اصولی حل تک رسائی اتنی ہی زیادہ مشکل ہوگی۔عرب جتنے زیادہ ایک دوسرے سے دور ہونگے اتنا ہی زیادہ انہیں ہرسطح پر نقصان اٹھانا پڑیگا۔ بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی عربوں کے جغرافیائی اور سیاسی حالات سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے اور عربوںکے مفادات سے کھیلتے رہیں گے۔
    اب جبکہ عربوں کی صورتحال کئی برس سے انتہائی ہنگامی صورتحال کے اعلان کی متقاضی بنی ہوئی ہے اور عرب خاموشی سادھے ہوئے ہیں ،اس موقع پر یہ سوال بجا طور پر پیدا ہوتا ہے کہ اب عربوں کو ایسی کس آفت کا انتظار ہے جس کے نازل ہونے پر ہی وہ اپنے مسائل کے حل پر توجہ دینا شروع کرینگے۔ پتہ نہیں عربوں میں یہ احساس کب جاگے اور کب وہ اپنے بحرانوں اور ناکامیوں سے نمٹنے کیلئے کم از کم قدر مشترک پر متفق ہونے کی فکر کرینگے؟
مزید پڑھیں:- - - - سعودی عرب تعمیر و ترقی کی شاہراہ پر
  
 

شیئر: