Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صاف ستھری تنقید کے فقدان کا نتیجہ!!

عبداللہ فراج الشریف ۔ المدینہ
کوئی بھی انسان اپنے ہموطنوں ، ہم مذہب، ہم زبان اور ہم تاریخ بھائیوں کی جارحیت سے اسی صورت میں محفوظ رہ سکتا ہے جبکہ اس کے برادران وطن ، مذہب ، دین و تاریخ (عرب و مسلمان) اعلیٰ اخلاق سے آراستہ ہوں۔ ہمارے پیش نظر ہمیشہ یہ بات رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور سید الانبیاءو المرسلین محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے عظیم نعمت جو ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیکر آئے وہ اخلاق فاضلہ کی ہی نعمت ہے۔ زندگی کے طویل تجربے کی بدولت یہ بات عرض کررہا ہوں کہ مجھے اخلاق فاضلہ کے پاسدار دینداروں سے زیادہ کوئی اور نہیں ملے۔ کہنایہ چاہتاہوں کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح پیرو کار ہوتے ہیں وہی اخلاق فاضلہ کے پاسبان ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کا کردار و گفتار صاف شفاف ہوتا ہے۔ جب انسان دینداری کی نعمت سے یکسر محروم ہوجائے تو اس کا رویہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اس کے اوپر آپ بھروسہ نہیں کرسکتے۔ایسے انسان سے ہمیشہ یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ جب بھی وہ تنقید کریگا تو تنقید خدا ترسی کا مظاہرہ نہیںکریگا۔ ایسے انسان پر اس حوالے سے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ لوگوں کو نصیحت کرتے وقت انہیں ذلیل او ررسوا کرنے سے گریز کریگا۔ ایسے انسان پر یہ اعتبار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ خیر خواہی کے نام پر اپنوں کو بدنام اور ذلیل و خوار نہیں کریگا۔میری عمر جتنی زیادہ بڑھتی جارہی ہے اتنا ہی زیادہ مجھے اپنی اس سوچ کے درست ہونے پر اعتماد بھی بڑھتا جارہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ دینداری سے محروم لوگ رفتہ رفتہ اپنے دین کی بہت ساری تعلیمات سے دستبردار ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے اور مذہب کے دشمنوں پر اپنے ہموطنوں اور ہم مذہبوںسے کہیں زیادہ اعتماد کرنے لگتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب معاملہ ہے۔ ان دنوں یہ ماجرا زیادہ واضح شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ 
جب جمال خاشقجی رحمتہ اللہ علیہ کے معاملے میں ہمارے دشمنوں نے ہم پر توہین و تذلیل کے تیر برسائے تو میں نے دیکھا کہ دینداری سے محروم لوگ سرگوشیاں کرنے لگے اور اپنی مذہبی اقدار سے آنکھیں چرانے لگے۔ انکے برعکس میں نے بہت سارے دینداروں کو دیکھا کہ وہ وطن عزیز کی پشت پناہی میں صادق و امین تھے۔ میں یہ بات دینداری کا مظاہرہ کرنے والوں کے دفاع میں نہیں کہہ رہا ہوں۔ میں ایسے لوگوں کے دفاع میں بھی یہ بات عرض نہیں کررہا ہوں جو عد ل و انصاف کی پابندی نہیں کرتے۔ لوگوں پر ظلم سے باز نہیں رہتے۔ غیبت کرنے میں ادنیٰ فروگزاشت سے کام نہیں لیتے ۔ میںایسے لوگوں کو دیندار نہیں مانتا جو حرام خوری کو اپنا وتیرہ بنائے ہوئے ہوں اور خود کو اللہ والا ظاہر کررہے ہوں۔ تلاوت اور وعظ کو اپنی پہچان بنائے ہوئے ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اس طرح کے لوگ دیندار ی کو اپنا گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ دیندار سے میری مراد وہ انسان ہے جو اللہ کی رحمت کی امید رکھتا ہو اور اس کے عذاب سے ڈرتا ہو۔ یہ لوگ کم تعداد میں ہیں۔ ہمیں ایسے ہی لوگوں کو اپنانا چاہئے۔ یہ عصر حاضر میں نادر سکہ ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: