Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تبدیلی ،انقلاب کی سمت و منزل

***محمد مبشر انوار***
پوری دنیا میں یہ امر مسلمہ ہے کہ جہاں انقلاب کی بات ہوتی ہے وہاں انقلاب کے خدو خال ،سمت و منزل کا تعین بڑا واضح ہوتا ہے لیکن بالعموم اختیار حاصل ہونے کے بعد داعیان انقلاب کو بے شمار سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ دنیاوی معاملات میں ایسے سمجھوتے کئے بغیر نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے کہ نظام میں موجود مخالفین کو یکسر نہ تو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان سے چھٹکارا ممکن ہے لیکن رہنماؤں کی نظر ہمیشہ ان کے مقاصد پر رہتی ہے،جس کے دعوے انہوں نے اپنی تحریک میں کر رکھے ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ میں فقط ایک ہی انقلاب ایسا ہے جس نے بنی نوع انسان کی زندگی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا وگرنہ دنیاوی انقلابات میں یہ سکت ہی نہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے انسانی زندگی کو ہمہ جہت تبدیل کر سکیں کہ دنیاوی معاملات وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ اسلامی انقلاب ہی وہ واحد انقلاب ہے جس کے آفاقی اصولوں نے ،حضرت انسان کورہتی دنیا تک کیلئے رہنما اصول فراہم کر دئیے کہ اگر وہ ان اصولوں کی پیروی کریں تو تا قیامت بھٹک نہیں سکتے۔ اسلامی انقلاب میں تا قیامت زندگی میں آنے والی تمام تر تبدیلیوں سے متعلق واضح احکامات دئیے گئے ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اگر حضرت انسان ان اصولوں کی پیروی کماحقہ کرے تو دنیا میں کسی قسم کے مسائل اسے پریشان کر سکیں کہ در حقیقت یہی وہ نظام ہے جو اللہ رب العزت نے حضرت انسان کیلئے ترتیب دیا ہے۔ حقیقت ! مگر اسکے الٹ ہے کہ حضرت انسان کو دی جانے والی عقل سلیم نے اس کو خبط میں مبتلا کر رکھا ہے اور اس میں ’’تکبر‘‘ یا’’ میں‘‘ کی ایسی خاصیت رکھ چھوڑی ہے کہ اکثریت ہر کامیابی کو اپنی فراست کی دین سمجھتے ہیںاور ہر ناکامی پر تقدیر کو مورود الزام ٹھہراتے ہیں۔ پاکستان کا وجود بذات خود ایک انقلاب ہے کہ بابائے قوم ابتداء میں متحد ہندوستان کے حامی رہے مگر بعد ازاں ہندو کے منافقانہ روئیے اور معاندانہ خصلت کے باعث کانگریس سے کنارہ کشی اختیار کر کے مسلم لیگ کی قیادت ایسی اولو العزمی سے سنبھالی کہ برصغیر کے مسلمانوںکی منجدھار میں پھنسی کشتی کو پاکستان کا کنارہ فراہم کیا۔ یہ ان کی سیاسی بصیرت و بصارت تھی اور اللہ کی خصوصی مدد شامل حال تھی کہ پاکستان کا قیام ممکن ہوا وگرنہ ہماری حالت بھی آج ہندوستان کے مسلمانوں سے مختلف نہ ہوتی بلکہ من حیث القوم ہماری وہ درگت بنتی کہ داستان تک نہ ہوتی داستانوں میں۔ 
قیام پاکستان کے بعد یہاں ہر دور میں عوام الناس کو انقلاب کی نوید اور خواب دکھائے جاتے رہے مگر ابتدائی چند سالوں کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی اور ہر رہنما نے اس قوم کے ساتھ انقلاب کے نام پر کھلواڑ کیا ہے۔ کیا آمر، کیا جمہوری رہنما،ہر دو طرز حکومتوں نے اقتدار سنبھالنے سے قبل اس کی نبض شناسی میں کوئی کوتاہی نہ کی مگر اقتدار ملتے ہی وہ تمام خواب’’جوڑ توڑ یا سمجھوتوں‘‘ کی نذر ہو جاتے رہے جبکہ عوام ششدر اپنے رہنماؤں کے منہ تکتی رہتی۔اس وقت بھی پاکستان میں تبدیلی کا زور و شور سے نعرہ لگانے والی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہے مگر افسوس کہ یہ حکومت بھی پچھلی حکومتوں سے مختلف ثابت نہیں ہو رہی۔ حکومتیں جس دست و بازؤں پر چلتی ہیں،وہ اس حکومت کا دست و بازو بننے سے گریزاں ہیں اور گریزاں کیوں نہ ہوں کہ جنہیں سہل پسندی کے ساتھ ساتھ نوازے جانے کی عادتیں پڑی ہوں،کار گزاری صرف غلط بیانی اور فقط کاغذی کارروائیوں تک سمٹ چکی ہو،ایسی ریاستی مشینری سے عوامی مفاد عامہ میں کام کرنے کی توقع عبث ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ریاستی مشینری سے ایسے افراد تلاش کرنا،جو واقعتانہ صرف کام کو سمجھتے ہوں بلکہ اس کو سرانجام دینے میں سنجیدہ بھی ہوں،کاروارد ہے،تو دوسری طرف حکومت وقت کی اپنی اہلیت ،اس معاملے میں اچھے خاصے سوالیہ نشان ہوں،تو معاملات میں بہتری کی گنجائش بظاہر کم لگتی ہے الا یہ کہ افسر شاہی خود کو بااثر خاندانوں کی غلامی کے تاثر سے نجات دے کر حقیقتاً ریاست کی ملازم سمجھے،ریاست کی وفادار ہو جائے۔ اس وقت بھی صورتحال یہی ہے کہ حکومت اپنے طے کردہ لائحہ عمل کے مطابق کرپٹ عناصر کے خلاف جنگ پر آمادہ ہے مگر افسر شاہی میں موجود افراد انہیں ثبوت فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں۔ ہماری افسر شاہی کا یہ حال ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان بذات خود چھاپہ مارتے ہیں،مشروبِ مغرب کی بوتلیں برآمد کرتے ہیں مگر ٹیسٹ میں وہی مشروبِ مغرب’’شہد‘‘  بن جاتا ہے۔یہ غلامی کی ایک ادنیٰ سی مثال ہے۔ 
دوسری طرف کپتان انقلاب نے ایسی ٹیم تشکیل دے رکھی ہے جس میں چند ایک ہی ایسے ہیں جو واقعتانئے ہیں جبکہ اکثریت انہی پر مشتمل ہے جو دہائیوں سے اس ملک کے وسائل پر قابض ہیں ۔وہی چہرے سیاسی جماعتیں تبدیل کر کے اقتدار کے مزے لوٹتے نظر آتے ہیں۔ کرپشن کیخلاف جاری جنگ ہو یا اسراف سے پہلوتہی،کفایت شعاری کی مہم ہویا عوام کو ریلیف دینے کا وعدہ،ہر جگہ حکومت کی ترجیحات انتہائی سطحی نظر آتی ہیں اور اپنے اقدامات سے حکومت نہ صرف خود بلکہ پاکستان کو بھی تماشہ بناتی نظر آتی ہے۔ وزیراعظم ہاؤس کی بھینسوں کی نیلامی کا بے جا چرچہ ہو یا ہیلی کاپٹر پر سفر ی اخراجات کے مضحکہ خیز جواز،حکومت خود اپوزیشن کو ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کی دعوت دیتی نظر آتی ہے۔ عالمی ادارے حکومت کے ان اقدامات پر اس حکومت کی ریٹنگ کرتے ہوئے اس سے مایوسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں اور اسکے ساتھ ایسے معاملات کی طرف توجہ دلاتے ہیں جہاں ایک ہی جھٹکے میں اربوں کھربوں کے ٹیکوں سے حکومتی وسائل کو بچایا جا سکتا ہے مگر کیا کہیںحکومتی نا اہلی یا نا سمجھی کہ حکومت ان معاملات میں پیشرفت کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ حکومتی اقدامات اور جواز بعینہ وہی ہیں جو سابقہ حکومتیں کرتی رہی ہیں کہ ڈالر کی قدر بڑھانے سے برآمدات بڑھ جائیں گی مگر نہ تو برآمدات بڑھتی ہیں اورنہ ہی معیشت بہتر ہوتی ہے۔ الٹا پاکستانی شہری مزید مہنگائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تبدیلی یا انقلاب برپا کرنے والوں کیلئے یہ لمحہ فکر ہے کہ وہ کسی ایک کل کو بھی قابو کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ابھی تک آنیاں جانیاں اور تحرک بے شک بہت زیادہ ہے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات اور پرنالہ ہنوز وہیں ہے۔ اس کشمکش میں یوں محسوس ہو رہاہے جیسے تبدیلی اپنا راستہ کھو چکی ہے، کشتی طغیانی کی لہروں ،اللہ کے سہارے بہہ رہی ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی محسوس ہوتا ہے جیسے ٹیم کے نئے کپتان کو سب مشکلات کا اندازہ تو ہے اور جیسے اس نے اقتدار میں آنے سے قبل کہا تھا کہ عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کہ سابقہ حکومتوں نے اس کیلئے کچھ چھوڑا ہی نہیں،خوش گمانی ہے کہ یہ مشکلات عارضی ثابت ہوں اور بالآخر پاکستانیوں کو سکون کی سانس میسر ہو خواہ دودھ شہد کی نہریں نہ بہیں مگر آبرو مندانہ روزگار پاکستان میں ہی میسر ہوجائے۔ غریبوں کی بھی سنی جائے۔چند ایک واقعات ایسے ہوئے تو ہیں،جنہیں دیکھ کر نئے پاکستان کا احساس ہوتا ہے کہ اب یہاں پہلے جیسے دو قوانین نہیں۔ مراعات یافتہ طبقہ بھی قانون کی گرفت میں آ سکتا ہے،جوابدہ ہو سکتا لیکن ہنوز قانونی کارروائی میںادارے یکساں سلوک نہیں کر رہے اور ہتھکڑیاں اور جیلیں حزب مخالف کیلئے ہی ہیں۔تبدیلی یا انقلاب اپنی سمت اور منزل کی جانب سست روی سے ہی سہی ،مگر چل رہا ہے۔
 

شیئر:

متعلقہ خبریں