1384ھ میں سربرآوردہ علماءبورڈ نے منیٰ کے پہاڑوں کے دامن میں کثیر منزلہ عمارتیں بنانے کے جواز کا فتویٰ جاری کیا تھا ۔ متعلقہ ادارے نے فتوے کے اجراءکے 3 عشروں کے بعد منیٰ میں 6یا 7ٹاور تعمیر کرائے۔ سربرآوردہ علماءبورڈ کے صر ف ایک رکن نے جواز کے فتوے کی مخالفت کی تھی۔ عجیب اتفاق یہ ہے کہ منیٰ میں عمارتیں کھڑی کرنے کے جواز کے فتوے کے باوجود اس سے مطلوبہ فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ سوشل انشورنس فنڈ اور سول پینشن فنڈ کی فنڈنگ سے ٹاور تعمیر کئے گئے۔ ٹاور کی تعمیر کا ٹھیکہ ایک مقامی ٹھیکیدار کو دیا گیا۔ اللہ ہی جانے کہ وہ پیشہ ور ٹھیکیدار تھا بھی یا نہیں۔ منیٰ میں جو 6یا 7ٹاور تعمیر کئے گئے وہ مطلوبہ معیار سے کم تر تھے۔ ان پر خطیر رقمیں خرچ ہوئیں۔ سوشل انشورنس اور سول پینشن فنڈز کے منتظمین نے اپنی پونجی نکالنے کیلئے ٹاورز کے کرائے زیادہ مقرر کئے۔یہ ٹاورز سال میں صر ف چند دن ہی استعمال میں آتے ہیں۔ باقی ایام میں خالی پڑے رہتے ہیں۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ 20برس کے دوران منیٰ میں صرف یہی ٹاور تعمیر کئے گئے ہیں۔ پورے میدان میں ان کے سوا کوئی اور ٹاور نہیں بنایا گیا۔
مجھے نہیں معلوم کہ سربرآوردہ علماءبورڈ کی جانب سے منیٰ میں عمارتیں تعمیر کرنے کے جواز کا فتویٰ صادر ہونے کے باوجود اس پر اول تو عمل کافی عرصے بعد کیا گیا اور پھر محدود دائرے میں نفاذ کے بعدراستہ بند کردیا گیا۔ پتہ نہیں اس کا سبب کوئی نیا فقہی نظریہ یا اس کے مخالف کوئی فتویٰ ہے یا 6یا 7ٹاورز کی تعمیر کا معاملہ منافع بخش ثابت نہیں ہوا اور سوشل انشورنس اور سول پینشن فنڈز کے ناکام تجربے کے بعد دیگر سرمایہ کاروں نے اس میں حصہ لینے کی ہمت نہیں کی یا اسکا باعث 1415ھ کے دوران سعودی کابینہ کی جانب سے منیٰ کے پہاڑوں کے دامن میں تعمیرات کے حوالے سے جاری ہونے والی قرارداد ہے۔دراصل سعودی وژن 2030میں کہا گیا ہے کہ 60لاکھ حاجیوں کو منیٰ میں ٹھہرانے کی گنجائش پیدا کی جائیگی۔ یہ وژن 2030کا عمدہ ہدف ہے مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت منیٰ میں 20لاکھ حاجی بھی بمشکل ہی کھپ پاتے ہیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ 60لاکھ کا ہدف پورا کرنے کیلئے منیٰ میں رہائش کی کھپت تین گنا بڑھانا ہوگی۔ یہ کام پورے منیٰ میں کثیر منزلہ عمارتوں کا جال پھیلائے، ٹرانسپورٹ اور بنیادی خدمات کو زیر زمین منتقل کئے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ رائل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا منیٰ میں رہائش کی گنجائش بڑھانے کے حوالے سے اپنے تصورات اور اسکیمیں ہونگی۔ یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک رائل اتھارٹی نے نہ اپنے کسی تصور کی بابت کسی کو کچھ بتایا ہے اور نہ ہی اس کی جانب سے کوئی اسکیم جاری ہوئی ہے۔ ہماری آرزو یہ ہے کہ سعودی وژن 2030 کا نصب العین کامیابی سے ہمکنار ہو۔ سالانہ 60لاکھ حاجی ارض مقدس آئیں اور وہ سکون و اطمینان کیساتھ منیٰ میں قیام کریں۔یہ ہدف اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک کہ مشاعر مقدسہ ڈیولپمنٹ رائل اتھارٹی اپنے تصورات اور اسکیمیں نافذ ن نہ کردے۔ عمل درآمد میں تاخیر مناسب نہیں ہوگی۔ بہتر ہوگا کہ نجی ادارے کو مکہ مکرمہ کو جدید خطوط پر استوار کرنے والے بعض منصوبے دیئے جائیں۔ اسی طرح منیٰ میں حجاج کی رہائشی عمارتوں اورمشاعر مقدسہ میں ضروری خدمات زیر زمین منتقل کرنے والے پروگراموں میں حصہ لینے کا انہیں موقع فراہم کیا جائے۔